عشق میں اور اذیت اے جگر چاہیے ہے

Image Source: Texas A&M University

عشق میں اور اذیت اے جگر چاہیے ہے
مجھکو اس آگ کے دریا میں بھنور چاہیے ہے

آنکھیں مانوسِ شبِ تارِ الم ہو بھی گئیں
اور یہ دل ہے اسے اب بھی سحر چاہیے ہے

جزبۂ عشق مرے رخ سے تو وحشت نہ ہٹا
مجھکو اس شوخ کی آنکھوں میں یہ ڈر چاہیے ہے

دھوپ ہی بیچنے والے یہ بتا سکتے ہیں
کون وہ لوگ ہیں جن جن کو شجر چاہیے ہے

خاک جھڑتی ہے بدن سے وہ تھکن ہے یاروں
روح بھی چیخ رہی ہے مجھے گھر چاہیے ہے

تیرگی کون سے کونے میں نہیں پہنچی ہے
روشنی تجھ سے فقط اتنی خبر چاہیے ہے

انکو سجدے میں تو انکو سرِ نوکِ نیزہ
سب کو بس ایک ہی دھن ہے مرا سر چاہیے ہے

کون جانے کہ سفر کی بھی کوئی منزل ہے
کون جانے کہ سفر کو بھی سفر چاہیے ہے

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here