یہ سوال ہر مسلم فکرمند کے ذہن میں ہوتا ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کو ہندوستان کے حالات کے مطابق کیا کرنا چاہیے نئے مسائل سے نمٹنے کے لیے کن میدانوں میں کام کرنا چاہیے ، ہمارے کام کا طریقہ کیا ہو اور ہماری اسٹریٹیجی کیا ہوں۔
گزشتہ کئی برسوں سے میں اس پر سوچتا رہا ہوں کہ آخر ہماری پستی کے بنیادی اسباب کیا ہے اور ہم اس پستی کی حالت سے کیسے نکل سکتے ہیں مسائل کے تمام گوشوں پر نظر رکھتے ہوئے مجھ کو یہ جواب ملا کہ مسلمان عقائد میں کمزور ہیں اور بہت سی غیر ضروری عادات و اطوار کو اپنا رکھا ہے اور اپنے حقیقی مقصد یعنی خالص عقائد کی طرف بلانے( دعوت دینے )میں ناکام ہیں اور تیسری وجہ ان کی تعلیم کا غلط رخ پر ہونا ہے، چونکہ عقائد درست نہیں اس لئے تعلیم کا رخ بھی غلط ہے ۔
یہی بنیادی کمزوریاں جو ہمارے ہاں در آئی ہیں ، اس لیے انہی کمزوریوں کو دور کرنا ہماری اولین ترجیح ہونی چاہیےاور اپنے حالات کو درست کرنے کی کوشش کی جانی چاہیے۔
ایمانی، دعوتی اور تعلیمی کمزوری کے علاوہ اور بھی کئی کمزوریاں ہو سکتی ہیں مگر وہ سب کہیں نہ کہیں ان تینوں ہی کمزوریوں کی وجہ سے ہیں اگر ان تینوں میدانوں کو فتح کر لیا جائے تو دوسرے میادین بھی بآسانی فتح ہو جائیں گے۔
ایمان وعقائد کی کمزوری ہی تمام مسائل کی ماں ہے اگر ہمارا ایمان اور عقیدہ کمزور ہو ہو جائے، اللہ پر یقین کم ہو جائے اور ظاہری اسباب و علل پر یقین بڑھ جائے تو اسی وقت سے ہماری پسپائی شروع ہوجاتی ہے
اس وقت مسلمانوں کی جو صورتحال ہے وہ انکے عقائد کی کمزوری کی وجہ سے ہیں جن خالص عقائد کو ہمیں ماننا تھاان کو ماننے کے بجائے ہم نے ان کے نئے اور آسان ورزن کو اپنا لیا ہے اور خود کو اس سے چمٹا لیا ہے اور نہ جانے کیسی کیسی خرافات میں الجھے ہوئے ہیں بعض لوگوں نے تو جیسے دین کا ٹھیکہ لے کر رکھا ہے اور دین کو کاروبار بنا رکھا ہے اور وہ اس کے ذریعہ اپنا پیٹ بڑھا رہے ہیں اور جاھل اور ان پڑھ مسلمان ان کے عقیدتمند بنے ہوۓ ہیں اور ان کی باتیں سن رہے ہیں ۔
ہمیں ان تمام غیر اسلامی عادت و اطوار سے خود کو نکالنا ہوگا اور قرآن کی خالص تعلیمات اور احکامات کے مطابق اپنے اعمال اور نظریات کو درست کرنا ہوگا ۔
: کارِ دعوت
ایمان کی درستگی کے بعد ہمہاری دوسری اہم ترجیح انہی عقائد کی طرف لوگوں کو بلانا ہے چونکہ مسلمانوں نے سرے سے اپنے بنیادی کام کو چھوڑ دیا ہے اور اس کے علاوہ بہت سے دوسرے کاموں میں مصروف ہوگئے جس کی وجہ سے غیر مسلم اسلام کے تعلق سے بہت سے شکوک و شبہات میں مبتلا ہوگئے اور بالخصوص پوسٹ بابری ایرا میں مسلمانوں نے اپنے غلط رویوں کی وجہ سے غیر مسلموں کے ذہن کو اور زیادہ شک میں مبتلا کیا ۔ جس کی وجہ سے داعی اور مدعو کے درمیان بھاری خلا پیدا ہوا ہے یہ صرف اس وجہ سے ہے کیونکہ ہم نے ان کے اندر دعوت کا کام نہیں کیا ، اپنے اعمال اور اخلاق کا مظاہرہ نہیں کیا اور ہم نے ان کو اسلام کی تعلیمات سے روشناس نہیں کرایا ۔
اس سے انکار نہیں کی ہم نے دعوت کا کام نہیں کیا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جس طرح سے کام ہونا چاہیے تھا ہم نے اس انداز میں اور اتنے بڑے پیمانے پر دعوت کا کام نہیں کیا اس لئے ضروری ہے کہ ہم چھوٹے ہوئے کام کو کو جلد از جلد کرنے کی کوشش کریں۔
:تعلیم
ہماری مصیبتوں کی ایک بڑی وجہ ہمارا تعلیمی گراف کا مسلسل گرنا ہے ۔وہ قوم جس نے سائنسی علوم کی داغ بیل ڈالی وہ ان علوم میں صفر ہے اگر مسلمانوں کو کو اپنی بگڑی حالت بنانی ہے تو ان تھک محنت کرکے انہیں تعلیمی میدانوں کو فتح کرنا ہوگا۔ یہ تعلیم اسی وقت کارآمد ہو گی جب اس تعلیم مین خوف خدا پایا جائے ورنہ وہ تعلیم جو خدا کے خوف سے عاری ہو وہ کبھی کامیابی کی راہ پر نہیں لے جا سکتی۔ واضح رہے کہ دوسری اور تیسری ترجیحات اسی وقت صحیح نتیجہ دے سکتی ہیں جب کہ اول الذکر ترجیح درست ہو ورنہ دوسری اور تیسری ترجیحات پہلی ترجیح کے غلط ہونے کی وجہ سے ایک نئی تباہی کی طرف لے جا سکتی ہیں ۔