حسین اتنا لگا ہم پہ مفلسی کا لباس
کہ پھر بنا ہی لیا اسکو زندگی کا لباسہمارے ناپ کے ملتے ہیں غم کے پیراہن
ہمارے ناپ کا ملتا نہیں خوشی کا لباسیہ کتنا تنگ زمانے نے کر دیا اسکو
چڑھائے چڑھتا نہیں تن پہ عاشقی کا لباساجالے دن میں بناتے ہیں تیرگی کی قبا
اندھیرے رات کو سیتے ہیں روشنی کا لباسنہ ضبط کی گئی ہستی کی ہم سے پامالی
اتار پھینک دیا ہم نے نوکری کا لباسنکلتے دن میں ہیں سورج کی اوڑھ کر چادر
ٹہلتے شب میں ہیں وہ لے کے چاندنی کا لباسمیں فاقہ مستوں کی زینت ہوں مفلسوں کا امیر
میں پھٹنے دونگا نہیں تن پہ تشنگی کا لباس