ہر شخص ہے یہاں پہ طلبگار عشق کا
اٹھتا نہیں ہے سب سے مگر بار عشق کا
آئی نہ کچھ بھی چارہ گری چارہ گر کے کام
بے چارہ ہو کہ بیٹھا ہے بیمار عشق کا
مطلب جسے نہیں ہے کوئی پیار عشق سے
مطلب اسے بتائے کوئی پیار عشق کا
کچھ ہم بھی نہ سمجھ سکے ان کے رموز اور
کچھ کھل کے کر نہ پائے وہ اظہار عشق کا
ساحل کی آپ لوگ توقع نہ کیجئے
دریا نہیں ہوا ہے کبھی پار عشق کا
اک بار چکھ کہ دیکھئے اور جان جائیے
ہم سے مزہ نہ پوچھئے سرکار عشق کا
کہتے ہیں اپنے دل پہ وہ رکھ کر ہمارا ہاتھ
احؔزم یہ ہو گیا ہے گرفتار عشق کا