ہر عشق روایت کی تو جاگیر نہیں ہے
رانجھا میں نہیں لگتا ہوں وہ ہیر نہیں ہےلب کیسے ہیں اب فیصلہ گفتار سے ہو گا
میں مدمقابل ہوں کوئی میر نہیں ہےآغوشِ محبت سے نہ گھبراؤ ہمارے
چادر ہے اِسے اوڑھ لو زنجیر نہیں ہےبس دیکھنا مقصد ہو تو تصویر لگے گی
محسوس کیا جائے تو تصویر نہیں ہےچاہے جو لکھے شوق سے دھڑکن کی عبارت
سو شکر میرے ہاتھوں کی تحریر نہیں ہےتم بھی تو نئے خواب کا تحفہ لیے آئی
یعنی مری تقدیر میں تعبیر نہیں ہے