حامد رضا صدیقی کی کتاب: انتظار حسین کے افسانوں میں ناسٹیلجیائی بیانیہ کا تنقیدی جائزہ

انتظار حسین کی ولادت 21 دسمبر 1925ء کو ڈبائی ضلع بلند شہر میں ہوئی۔ میرٹھ کالج سے بی اے اور ایم اے اردو کیا۔ملک کی تقسیم کے وقت ہجرت کر کے ہندوستان سے پاکستان چلے گئے اور لاہور میں قیام پذیر ہوئے۔

    انتظار حسین کی تخلیقی زندگی کا جائزہ لیا جائے تو ان کی شخصیت کے کئی پہلو نکلتے ہیں وہ بیک وقت افسانہ نگار،ناول نگار،ناقد،مترجم ہونے کے ساتھ ساتھ صحافت کے میدان میں بھی ممتاز و منفردنظر آتے ہیں۔لیکن وہ بنیادی طور پر ایک افسانہ نگار ہی ہیں۔ان کے افسانوی مجموعے”گلی کوچے، کنکری، آخری آدمی، شہر افسوس، کچھوے، خیمے سے دور، خالی پنجرہ اور شہرزاد“ ادبی حلقوں میں بڑی قدر و منزلت رکھتے ہیں۔

   انتظار حسین کے افسانوں میں ایک مخصوص اسلوب اور لہجہ دیکھنے کو ملتا ہے۔جو ان کو اپنے ہم عصر افسانہ نگاروں میں شہرہئ آفاق بناتا ہے۔انہوں نے قدیم ادبی روایتوں اوراسلاف کے سرمائے سے فیض حاصل کرتے ہوئے اپنی نئی راہ نکالی۔ان کے یہاں داستانوں کی سی فضا، کردار نگاری اور اساطیری رجحان صاف نظر آتاہے۔جس کو وہ عصر حاضر کے تقاضوں میں ڈھال کر پیش کرتے ہیں۔ان کے یہاں ماضی کا کرب،ملک کی تقسیم،اور اپنے وطن، عزیز و اقارب اور دوستوں سے بچھڑنے کا درد جھلکتا ہے۔اگر یہ کہا جائے کہ ان کے افسانے ان کے ماضی کا نوحہ ہیں جس کو وہ پیچھے چھوڑ آئے ہیں تو ہرگز غلط نہ ہوگا۔یہی وجہ کہ ان کے یہاں ناسٹیلجیائی بیانیہ اپنی پوری آب و تاب سے دیکھنے کو ملتا ہے۔حامد رضا صدیقی کی کتاب ”انتظار حسین کے افسانوں میں ناسٹیلجیائی بیانیہ” ایک اہم تحقیقی و تنقیدی کتاب ہے۔جس میں موصوف نے انتظار حسین کے افسانوں میں آئے ناسٹیلجیائی بیانہ کا جائزہ لیا ہے۔

    لفظ ناسٹالجیا  یونانی  زبان کے لفظ نوسٹوس سے بنا ہے جس کا مطلب گھر واپسی ہے اور لفظ الگوس کا مطلب ”غم” یا ”مایوسی” ہے۔

    در اصل ناسٹالجیا اصطلاحی طورپرانسان کے ماضی سے جڑی ہوئی یادوں کی ترجمانی کا اظہار کرتا ہے۔جس کو یاد کر کے انسان جذباتی ہوجاتا ہے۔یہ ایک نفسیاتی کیفیت بھی ہے۔ماہرین کے مطابق انسان اس دنیا میں شعور لے کر آیا ہے۔اورہر لمحہ کائنات میں ہونے والی تبدیلی پر غور و فکر کرتا رہتا ہے۔وہ اپنے ماضی پر بھی غور کرتا ہے اور مستقبل کی فکر بھی اس کو لاحق رہتی ہے۔انسان اپنے تجربات اور گزرے ہوئے لمحات کو کبھی آسانی سے بھول نہیں سکتا۔یہاں تک عمر کے آخری ایام تک اس کو اپنے ماضی کی باتیں یاد رہتی ہیں۔سائنس دانوں نے تحقیق سے یہ بات ثابت کی ہے کہ انسانی دماغ آخری لمحات میں زندگی کے اہم لمحات اور واقعات کو فاسٹ فارورڈ فوٹیج کی طرح دیکھتا ہے۔یعنی اپنے ماضی کی یادوں کو دوہراتا ہے۔ ماضی کی باتوں کو یاد کرنا،ماضی کی یادوں میں رہنا اور ماضی کو اپنے حال سے بہتر تصور کرنا ناسٹالجیا کی علامتیں ہیں۔

     انتظار حسین کے افسانوں کا جب ہم مطالعہ کرتے ہیں تو ان کے یہاں یہ باتیں نمایاں نظر آتی ہیں۔یادِ ماضی،گزرے ہوئے لمحات، عزیز و اقارب کی ساتھ گزارا ہوا وقت،یعنی یہ سب ان کے شعور کا حصہ ہیں۔

     حامد رضا صدیقی اپنی اس کتاب سے متعلق اعتراف کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:

”یہ کتاب دراصل انتظار حسین کے ان افسانوں کا تجزیاتی مطالعہ ہے جو موضوع کے اعتبار سے ہجرت اور تقسیم ہند سے متعلق ہیں لیکن سب کی نوعیت جدا گانہ ہے۔ جس میں ناچیز نے ان کے ہجرت اور نا سٹالجیا سے متعلق افسانوں کو یکجا کر کے فرداً فرداً ان کا تجزیہ کیا ہے۔ علاوہ ازیں ان افسانوں کے موضوع، اسلوب، زبان و بیان پر بھر پور روشنی ڈالی گئی ہے۔ تا کہ موضوع کے ساتھ انصاف کیا جا سکے اور ان افسانوں کا تعین قدر پورے طور پر ہو سکے۔”

    ملک کی تقسیم کے بعد پیش آنے والی صورت حال اور ہجرت کے کرب کو موضوع بنا کر متعدد تخلیق کاروں نے ادبی فن پارے تخلیق کئے ہیں۔لیکن انتظار حسین کی افسانوں میں ناسٹالجیا کی کیفیت شدت کے ساتھ نمایاں طور پر دیکھنے کو ملتی ہے۔وہ اپنے ماضی کو کبھی بھولتے نہیں ہیں۔بلکہ وہ حال میں رہتے ہوئے بھی ماضی میں جیتے ہیں۔ حامد رضا صدیقی اس بات کی طرف متوجہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:

”انتظار حسین نے اپنے افسانوں کی شکل اپنے ماضی کو زندہ رکھنے کی کوشش کی ہے۔ ان کے افسانے تقسیم، ہجرت، تہذیبی بحران اور اخلاقی قدروں کے زوال کا نوحہ ہیں۔ وہ خود بھی ہجرت کے کرب سے گزرے تھے، اس لیے سرحد کے پار کے گلی کوچے، بازار، پرانے رشتہ دار اور ان سے منسوب واقعات ان کے افسانوں کے حصہ ہیں۔ ان کے افسانے وطن کی جدائی، ہجرت اور ماضی کے گم شدہ معاشرے کے تہذیبی و جذباتی رشتوں کی کہانیوں پر مشتمل ہیں۔ تقسیم ہند نے بے شمار مسائل ومصائب پیدا کیے تھے۔ لاتعداد حضرات مصائب و آلام کا شکار ہوئے۔ ان گنت خاندانوں کا شیرازہ بکھر گیا۔ بہت سے لوگ اپنے عزیز واقارب سے بچھڑ گئے۔ ان کے پورے افسانوی کائنات پر ماضی کی یاد کا عکس دکھائی دیتا ہے۔ یوپی، میرٹھ، ڈبائی کی ان کی پرانی یاد میں اور ان سے جذباتی وابستگی پورے افسانے پر چھائی ہوئی ہے۔ تقسیم سے پہلے معاشرے کی کیا وضعداریاں پرانی مروتیں تھیں، جن کا نقشہ وہ بار بار اپنے ابتدائی افسانوں میں بڑی باریک بینی سے کھینچتے ہیں۔ ”

    انتظار حسین کے افسانوں میں دیہی و قصباتی فضا بھی نمایاں طور پر نظر آتی ہے۔ انھوں نے اپنے افسانوں میں بڑی ہی ہنر مندی اور مہارت کے ساتھ اپنے ماضی کی یادوں کو زندہ کر دیا ہے۔ان کا ماضی ان کے افسانوں میں چلتا پھرتا اور جیتا جاگتا نظر آتا ہے۔وہ تمام لمحات جو انھوں نے ہجرت سے قبل اپنے وطن اور دیگر شہروں میں گزارتے تھے ان کی جھلک ان کے افسانوں، کرداروں اور مکالموں میں زندہ و جاوید بن کر جیتے جاگتے اور چلتے پھرتے نظر آتے ہیں۔ڈبائی کی یادیں ہوں یا میرٹھ کی گلیوں کی چہل پہل وہ سب کا ذکر کسی نہ کسی انداز میں ضرور کرتے ہیں۔جس کو پڑھ کر قاری انتظار حسین کے ماضی کی سیر کرنے لگتا ہے۔

  ان کے افسانے ان کے مسائلِ حیات کے ساتھ ساتھ ان کے ماضی کا مرثیہ پڑھتے ہیں۔ ان کے یہاں نہ صرف ان کے ماضی کی معاشرتی زندگی کا پتہ چلتاہے بلکہ اس دور کی رسم و رواج، روایتیں،سیاسی و سماجی سرگرمیوں کی بھی معلومات ہوتی ہے۔ان کوہمیشہ اپنے وطن کی یاد ستاتی ہے اور ہجرت ان کو مسلسل کرب کا شکار رکھتی ہے۔حامد رضا صدیقی اس بات کی وضاحت کے لئے اپنی اس کتاب میں انتظار حسین کے اعتراف کو کچھ اس طرح تحریر کرتے ہیں۔

    بقول انتظار حسین: ”میرے افسانے تو میری کربلا ہیں۔ میرے ٹکڑے ٹکڑے ہو چکے ہیں اور پوری کربلا میں بکھرے ہوئے ہیں۔ خود میرے لئے یہ مسئلہ ہیں کہ میں ان لخت جگر کو کیسے جمع کروں اور کیسے زندگی میں اپنے آپ کو ظاہر کروں، اپنی تخلیق بروئے کار لاؤں۔”

    اسی کی وضاحت کرتے ہوئے حامد رضا صدیقی آگے کچھ اس طرح رقم طراز ہیں:

”انتظار حسین کا پہلا افسانہ ”قیوما کی دکان“جو”ادب لطیف“ لاہور کے دسمبر1948ء میں شائع ہوا تھا۔ اس افسانہ سے لے کر ان کے پہلے مجموعے ”گلی کوچے“اس کے بعد ”کنکری“ آخری آدمی“ اور ”شہر افسوس“تک کے مجموعوں میں انتظار حسین نے ہجرت کے حوالے سے بہترین افسانے لکھے ہیں۔ ان کے پہلے مجموعے ‘گلی کوچے‘ میں ۲۱افسانے ہیں۔ جن میں سے آٹھ افسانے تقسیم ہند کے موضوع پر ہیں ”قیوما کی دوکان“ تقسیم ہند کے حوالے سے بہترین افسانہ ہے۔ قیوما اس افسانے کا مرکزی کردار ہے۔ دکان اس گاؤں میں ایک فرد یا ذات نہیں بلکہ یہ ایک مشترکہ تہذیب، تاریخ، اور روایت ہے۔ جہاں مختلف ذات اور مختلف روایت کے لوگ اکھٹا ہوتے ہیں اور دیر رات تک مختلف موضوع پر باتیں کرتے ہیں۔”

     در اصل قیوما کی دوکان وہ افسانہ ہے جو انتظار حسین کے ماضی کی یادوں کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے۔اس میں موجود کردار وہ کردار ہیں جن کو انتظار حسین نے اپنی زندگی میں یعنی اپنے ماضی میں چلتے پھرتے دیکھا ہے، ان کو برتا ہے ان کے ساتھ وقت گزاراہے۔ اس میں موجود کردار،بدھن، حسین گدی، رمضانی قصائی، الطاف پہلوان مکرجی اور اس جیسے بے شمار لوگ ان کے ماضی کے کردار ہیں۔ اس افسانے کو پڑھنے کے بعد انتظار حسین کے ماضی کا خاکہ آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے۔قیوما کی دوکان پر مختلف مزاج کے لوگ آتے جاتے ہیں اور طرح طرح کی باتیں اپنے علم و شعور کے اعتبار سے کرتے ہیں۔اس طرح قیوما کی دکان پر مختلف مذاہب کے لوگوں کے خیالات اور جذبات کا اظہار دیکھنے کو ملتا ہے۔ یہ دوکان کبھی بند نہیں ہوتی، چاہے کیسے بھی حالات ہوں چاہے آندھی، طوفان، میلاد،مجلس محرم، شادی بیاہ، ہو، دیوالی کچھ بھی ہو۔ لیکن تقسیمِ ہند کے سانحے کے بعد اس دکان کو بھی مجبوراً بند کرنا پڑا ہے۔قیوما کی دوکان بھی بدلتے ہوئے حالات کا شکار ہو گئی ہے۔قیوما ہجرت کر کے پاکستان چلا جاتا ہے۔اور از سر نو اپنی دوکان کی بنیاد رکھتا ہے۔لیکن اب اس دوکان کو وہ رونقیں میسر نہیں جو پہلے ہوا کرتی تھیں۔

    اس کے بعدکتاب میں ”محل والے“ افسانے کا ذکر دیکھنے کو ملتاہے۔یہ انتظار حسین کا تقسیم ہند کے حوالے سے مشہور افسانہ ہے۔ جس میں محل ایک علامت کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔جو قدیم تاریخ، روایت، کلچر، تہذیب و تمدن،رسم و رواج کی علامت ہے۔اس افسانے سے متعلق حامد رضا صدیقی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

   ”جج صاحب اس افسانے کے مرکزی کردار ہیں۔ جو سارے محل والوں کو اپنے زندگی میں ایک ساتھ رکھتے ہیں۔ ان کے انتقال کے بعد پورا خاندان منتشر ہو جاتا ہے۔ جس کو جو راستہ نظر آیا نکل گیا۔ شیخ جبار کلکتہ جا کر بیو پار کرنے لگے۔ ہادی بھائی نے آگرہ جا کر جوتوں کی دکان کھول لی، جعفری رینجر آفیسر ہو گئے، پروفیسر شاہ پنجاب شہر میں ایک کالج میں لیکچر ر ہو گئے۔ اس طرح سے پورا خاندان بٹ گیا۔ محل جو ایک قدیم اقدار کی علامت ہے ختم ہو رہی ہے لوگ مختلف شہر میں بس گئے اور یہاں تک ذات پات بدل لئے ان کی جو شناخت (Identification) تھی وہ ختم ہو گئی۔“

   حامد رضا صدیقی انتظار حسین کے افسانوں میں آئے ناسٹیلجیائی عناصر کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں:

”انہوں نے اپنے افسانوں میں اس کلیہ کو پیش کیا ہے کہ چھوڑی ہوئی بستیاں، وہ ہ زمین جس کو انہوں نے 1947ء میں چھوڑا تھا۔ اب اس کی یادیں ایک ٹیسں بن کر بار بار آتی ہیں۔ وہ اس فلسفہئ کرب کو کھوجتے رہتے ہیں کہ جب انسان اپنی بستی اور شہر سے بچھڑ جاتا ہے تو اس پر کیا گذرتی ہے اور اس بستی پر کیا بیتی ہے۔ ان میں فرد اور بستی کا روحانی ربط اور بچھڑنے کے بعد کے داخلی کرب کی داستانیں بیان ہوئیں ہیں۔ یعنی فرد اپنی ذات اپنی تہذیب اور شناخت کی جستجو میں ماضی کے کھنڈروں میں مارا مارا پھر رہا ہے۔“

    انتظار حسین کے دیگر افسانو ں میں ”استاد“ ایک اہم افسانہ ہے۔استاد اپنے قصبے کے بہت ہی ہر دل عزیز شخصیت ہیں۔ یہ مختلف فنون میں مہارت رکھتے ہیں۔ مثلاًتقسیم ہندسے پہلے یہ بہادری پہلوانی، طاقت،عزت، تلوار بازی، آتش بازی میں ایک خاص مقام رکھتے تھے۔ قصبے میں لوگوں کی توجہ کے مرکز تھے۔ مگر تقسیم ہند کے بعد ان کی ساری شہرت ختم ہو جاتی ہے۔ یہ بڑے مایوسی کی زندگی گزارنے لگتے ہیں۔ جیسے کوئی اجڑے نگر میں بڑا سا ایک پرانا برگد کا درخت کھڑا رہ گیا ہو۔

    انتظار حسین کے کچھ اور افسانے مثلاً”بن لکھی رزمیہ،بیرم کا ربوٹ،شہر افسوس،کٹا ہوا ڈبا،پرچھائیں،ہم سفر“ کے بارے میں کتاب سیر حاصل گفتگو کرتی ہے۔یہ افسانے بھی ہجرت اور نا سٹالجیا کیفیت کے ترجمان کہے جاسکتے ہیں۔کیوں کہ ان افسانوں میں بھی انتظار حسین کے ماضی کی یادوں کی جھلکیاں ہیں۔اس پر روشنی ڈالتے ہوئے حامد رضا صدیقی ان افسانوں کو لیجینڈ قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں:

”کٹا ہوا ڈبا ” بھی تقسیم ہند کے حوالے سے بہترین افسانہ ہے۔ ہجرت چونکہ انتظار حسین کے یہاں ایک اسطورہ اور Legend ہے اور سفر ہجرت کے لئے لازم ہے اس لئے ان کے یہاں سفر سے متعلق بڑے شاہکار افسانے ملتے ہیں۔ ”وہ جو کھوئے گئے، شہر افسوس، ہم سفر، پر چھائیں ”کٹا ہوا ڈبا وغیرہ۔ انتظار حسین کے یہاں ایک لیجینڈ ہے جس کے تحت انہوں نے ہجرت کے مختلف الجہات مسئلوں کو پیش کیا ہے۔ زمانے اور معاشرے میں کس طرح انسان کبھی زمانی ہجرت، معاشرتی ہجرت، روحانی ہجرت، تہذیبی ہجرت کرتا ہے۔ انتظار حسین نے ان مسئلوں کو بڑی فنکاری سے پیش کیا ہے۔ انتظار حسین کی اکثر کہانیوں میں اندرونی روحانی ہجرت اور سفر کی مختلف الجہات اور متنوع مسائل سے کہانیاں روشن ہوتی ہیں۔ ان کے یہاں قاری کو یہ اکثر دیکھنے کو ملتا ہے کہ دماغ میں کوئی وسوسہ، شک، وہم سر اٹھاتا ہے اور دماغ میں ایک دھندلا ہٹ جاتا ہے اور اس کے بعد تواتر سے پرانی یاد میں یاد آتی چلی جاتی ہے۔ پھر ماضی کے مختلف تصویر میں واقعات و کیفیات کے نقوش ان کے ذہن میں پانی کے بلبلوں کی طرح نکلنا شروع ہو جاتے ہیں۔ یہ دراصل انتظار حسین کے مسلسل سوچنے، غور وفکر کرنے اور Recalling کرنے کا نتیجہ ہے۔“

     انتظار حسین کی دیگر ناسٹالجیا سے متاثر کہانیوں میں ”دہلیز“ اپنے بیانیہ کے اعتبار ایک منفرد افسانے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔اس سے متعلق حامد رضا صدیقی کہتے ہیں:

   ”دہلیز در اصل یادوں کی وہ دہلیز ہے جو ماضی میں کٹ کے رہ گیا ہے۔ اس افسانے کے چار کردار ہیں اماں جی، صفیہ، بتو، آپاجی، صفیہ اس کہانی کا مرکزی کردار ہے جو اپنی ماضی کے یادوں کو اماں جی کے کبھی آپا جی کے، کبھی بتو کے زبان سے بیان کرتی ہے۔ یہ کوٹھری کی دہلیز اس کے بچپن، اس کے جوانی اور محبت کا مرکز ہے۔ اس کو انتظار حسین نے ایک عورت کی زبانی اور اس کی نظر سے زمینی رشتوں، اور صدیوں کی یادداشت، معاشرے سے وابستگی کو دکھایا گیا ہے۔ خاندان، افراد کی بود و باش پرانی روایت واقدار اور بچپن کی آزادی عورت کے دیگر مسائل کو عورت کی زبان سے بیان کی ہے۔“

   انتظارحسین کی ایک اور اہم تمثیلی کہانی ”سیڑھیاں“ہے اس میں بھی بنیادی طور پر وہی فضا دیکھنے کو ملتی ہے جو دہلیز اور کٹا ہوا ڈبہ کی ہیں۔ انتظار حسین نے اپنی یادوں کا سہارا لے کر بہترین بیانیے تحریر کئے ہیں۔اس کہانی میں شیعی عقائد، اساطیری اثرات انسانی یاد داشت، نسل اور اجتماعی سفر اور خواب کی داخلی کیفیات جیسی کہانیاں دیکھنے کو ملتی ہیں۔”مردہ راکھ“ بھی تقسیم ہند اور ناسٹیلجیائی بیانیہ کا حسین ترجمان ہے۔جس سے متعلق حامد رضا صدیقی کہتے ہیں:

”مردہ راکھ“ بھی تقسیم ہند کے حوالے سے لکھا گیا افسانہ ہے، کہانی اس طرح شروع ہوتی ہے کہ اس برس سواری نہیں آئی یہ واقعہ بڑا علم گم ہونے کے ایک سال بعد کا ہے۔ یہ پوری کہانی فلیش بیک کی تکنیک میں لکھی گئی ہے اس کہانی کے چار کردار ہیں، فرزند علی عوض کربلائی، تفضل، اختر، تراب علی متولی، افضال حسین جو اپنے نام کے اعتبار سے شیعیت کا وجود اور تاریخی روایت رکھتے ہیں۔ محرم کے رسم و رواج انتظار حسین کے یہاں ایک اجتماعی لاشعور کے تحت آتے ہیں۔ کیونکہ وہ شیعہ خاندان میں پیدا ہوئے اور بچپن سے لیکر جوانی تک انہوں نے اسی درمیان گزارا ہے اور شیعیت کے تمام روایت واقدار کو دیکھا اور سمجھا ہے۔ اس پورے منظر کو فلیش بیک کی تکنیک میں بیان کیا گیا ہے۔ چونکہ آزادی کے بعد انتظار حسین پوری طرح اس روایت سے کٹ جاتے ہیں اس لئے ان مسئلوں کو ایک یادداشت کے طور پر بیان کرتے ہیں کہ تقسیم ہند سے پہلے کس طرح بڑے ذوق و شوق سے محرم منایا جا تا تھا۔ مگر آزادی کے بعد سے لوگوں کے اندر وہ جذباتی عقیدت مندی ختم ہو جاتی ہے۔ لوگوں کے اندر عیاری پیدا ہو جاتی ہے۔ لوگوں کے اندر روحانی زوال پیدا ہو گیا ہے اور ان کے ضمیر مردہ ہو گئے ہیں۔“

    اس کے علاوہ اس کتاب میں مصنف نے انتظار حسین کے دیگر افسانوں مثلاً ”مشکوک لوگ،دوسرا راستہ،اندھی گلی،وہ جودیوار کو نہ چاٹ سکے،اسیر،ہندوستان سے ایک خط،خواب اور تقدیر،کشتی،نر ناری وغیرہ کے حوالے سے بھی انتظار حسین کے ناسٹیلجیائی بیانیہ پر روشنی ڈالی ہے۔حامد رضا صدیقی نے انتظار حسین کے افسانوں میں ناسٹیلجیائی بیانیہ لکھ کر قاری کو انتظار حسین کے ماضی سے آشنا کرایا ہے۔حامد رضا صدیقی کتاب کے آخر میں ایک جگہ انتظار حسین کے افسانوں کا محاکمہ کرتے ہوں تحریر کرتے ہیں:

      ”انتظار حسین کے افسانوں کا بغور مطالعہ کیا جائے تو جو چیز بار ہادیکھنے میں آتی ہے وہ ان کے ماضی پرستی اور تقسیم ہند کے پہلے سے وہ واقعات ہیں جو انہیں بار بار ٹیس کرتی ہیں۔ اس لئے انہوں نے ماضی کی بازیافت اور گم شدہ وہ تمام تہذیب و اقدار جو اپنے ایک خاص انداز میں ہندوستان میں پروان چڑھ رہا تھا ان کو مجموعی طور پر پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہ تقسیم ہند کے پہلے کے ان تمام گمشدہ ورثے، یادداشت، رسوم و رواج مکانات و واقعات، تیوہار، میلے ٹھیلے جیسے سبھی موضوعات کو چیدہ چیدہ کر کے اپنے افسانوں میں موضوع بناتے ہیں۔ جس سے انتظار حسین کے یہاں مشرقی تہذیب کی قدیم روایت قائم ہو جاتی ہے۔“

   مختصریہ کہ اس کتاب کا مطالعہ کرنے کے بعد قاری کافی حد تک انتظار حسین کے ماضی،ان کی نفسیات،ان کی فکر،ان کے معاشرے اور سماج کے تمدن اور ان کے زندگی کے نشیب و فراز سے واقف ہو جاتا ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here