ہم بیاں مدعا نہ کر پائے
اپنے حق میں دعا نہ کر پائےہے قلق روز و شب یہی ہم کو
در پہ تیرے صدا نہ کر پائےچارہ گر دیکھتے رہے صورت
دردِ دل کی دوا نہ کر پائےبس کہ گردابِ رنج سے گرزے
ہم کبھی ارتقاء نہ پائےدل ہے کب سے دھواں دھواں میرا
دوست ایسے ہوا نہ کر پائےکرتے کرتے بھلا زمانے کا
فرض اپنا ادا نہ کر پائےکیا شکایت ہو بے وفاؤں سے
ہم تو خود سے وفا نہ کر پائےتم بھی صائنؔ عجیب بندے ہو
اپنے رب کی رضا نہ کر پائے