ہم بیاں مدعا نہ کر پائے

Image Source: Pexels

ہم بیاں مدعا نہ کر پائے
اپنے حق میں دعا نہ کر پائے

ہے قلق روز و شب یہی ہم کو
در پہ تیرے صدا نہ کر پائے

چارہ گر دیکھتے رہے صورت
دردِ دل کی دوا نہ کر پائے

بس کہ گردابِ رنج سے گرزے
ہم کبھی ارتقاء نہ پائے

دل ہے کب سے دھواں دھواں میرا
دوست ایسے ہوا نہ کر پائے

کرتے کرتے بھلا زمانے کا
فرض اپنا ادا نہ کر پائے

کیا شکایت ہو بے وفاؤں سے
ہم تو خود سے وفا نہ کر پائے

تم بھی صائنؔ عجیب بندے ہو
اپنے رب کی رضا نہ کر پائے

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here