گھنا درخت

ایک سرسبز شاداب گلشن میں دو صدیوں سے ایک گھنا تناور درخت اپنے پورے آب و تاب کے ساتھ کھڑا تھا۔زندگی کے بڑے نشیب و فراز سے گزرا۔دھوپ اور چھاؤں میں رہا۔کبھی کسی نے اس کو بدنظر سے نہیں دیکھا۔اس نے بھی کسی کے ساتھ کوئی تفریق یا بھید بھاؤ نہیں کیا۔سب پر اپنی شاخوں کا سایہ بنائے رکھا۔نہ جانے کتنے پرندوں نے اس کے سایہ میں پرواز کرنا سیکھا اور کتنے ہی ذرات اس کی زمین سے اٹھ کر مثل کہکشاں آسمانوں میں چمکے۔ہر کسی نے اس سے فیض حاصل کیا۔اس کے پھل کھائے،اس کے سایہ میں اپنی زندگی کو سنورا۔لیکن جب گلشن میں موسم تبدیل ہوا تو یہ بھی سیاہ آندھیوں کی زد میں آنے لگا اور آج عالم یہ تھا کہ گلشن میں خزاؤں کی حکومت قائم ہونے کے بعدیہ درخت سیاہ آندھیوں کی نظر میں کانٹے کی طرح چبھ رہا تھا۔اب اس کو زمین دوز کرنے کے لئے منصوبے تیار کئے جارہے تھے کہ کس طرح اس میں آگ لگائی جائے۔

آخر کار سیاہ آندھیوں نے ایک خاص منصوبہ پر عمل کرتے ہوئے گلشن کی پاک فضاؤں کو زہریلہ کرنا شروع کردیا۔ ہر طرف مردہ پتوں کے جسم کے ڈھیر نظر آتے تھے جن میں آگ لگی تھی۔ ایسی صورت حال تھی کہ گلشن میں ہر طرف کہرام برپا تھا۔پھول سہمے ہوئے اور پرندے غم زدہ نظر آتے تھے نہ جانے کون کب آ کر ان کے آشیانوں کو برباد کردے۔ محبت و الفت،ایکتا و یگانگت اور بھائی چارہ کی فصا برباد ہو رہی تھی۔ پھول ایک دوسرے سے برسر پیکار نظر آتے تھے۔ ایسا لگتا تھا کہ چلنے والی نئی ہوائیں خون کی ہولی کھیلنا چاہتی تھیں۔ مگر یہ درخت انسانیت کا علم بردار تھا اور آلودگی کو مٹانے کے لئے کوشاں تھا۔ اس لئے سب سے زیادہ منصوبہ اس کو برباد کرنے کے لئے بنائے جارہے تھے۔

خزاؤں کے زیر اثر چلنے والی سیاہ آندھیوں نے نئے نئے پیترے اپنائے۔سیاہ زہریلے ناگ بنا کر درخت کو گرفت میں لینا چاہا۔ یہ ناگ درخت کی شاخوں سے لپٹ کر اس کو ڈسنے لگے تاکہ اس کے پھل اور پھولوں کو زہر آلودہ کر سکیں۔ کبھی ان آندھیوں نے آری کا روپ دھر کر اس کے تنے کو کاٹنے کی کوشش کی لیکن وہ اپنے منصوبوں میں ہمیشہ ناکام رہیں۔

ان ناکامیوں نے ان کے اندر اور غصہ بھر دیا تھا۔ پھر یہ ہوا کہ ان ہواؤں نے اپنے پوری طاقت کے ساتھ وار کیا۔ اب وہ مزید کہرام مچا رہی تھیں۔ گلشن پر سیاہ کالے گھنے بادل چھانے لگے تھے۔ پورا ماحول سیاہ اندھیرے میں ڈوب گیا۔ جم کر بارش ہوئی۔ درخت کے چاروں طرف کی مٹّی دلدلی اور کیچڑ بھری ہونے لگی۔ایک خاص قسم کے پھول اس میں اگ آئے تھے جو کیچڑ میں لت پت تھے۔ جب ہوا چلتی تو کیچڑ اُڑ کر درخت کے پتوں اور شاخوں پر بدنماں داغ بن کر لپٹ جاتی۔ آندھیاں خوش ہونے لگیں کہ وہ اپنی کوشش میں کامیاب ہو رہی ہیں۔ لیکن ان کو خبر نہیں تھی کہ امید کا ایک سورج سیاہ بادلوں کے درمیان سے روشنی بکھیر رہا ہے۔ یہ وہی سورج تھا جو اس سر زمین سے نمودار ہواتھا۔ اس نے ایسی آب و تاب دکھائی کہ تمام کیچڑ سوکھ کر خاک بن گئی اور درخت سر سبز شاداب بن کر اپنا سایہ پھر سے بکھیرنے لگا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here