فسانہ دردِ دل کس کو سناؤں عید کا دن ہے
گزرتی ہے جو، وہ کیسے بتاؤں عید کا دن ہے
میں اپنوں سے ہوں میلوں دور، تنہا ہوں اکیلا ہوں
یہ غم فرقت کا کیسے بھول جاؤں عید کا دن ہے
وہ میری ماں کے ہاتھوں کی مٹھائی بھی رلاتی ہے
وہ جو کہتی تھی بیٹا آ کھلاؤں عید کا دن ہے
وہ کوئی ہے جو میری راہ تکتے تھک گئی ہوگی
تو اس غم پر نہ کیوں آنسو بہاؤں عید کا دن ہے
سجی ہوگی کوئی میرے لئے ہی آج بھی پھر سے
میں اس کے ناز نخرے بھی اٹھاؤں عید کا دن ہے
گلے ملتا میں ہر اک سے دعا دیتا دعا لیتا
وہ لمحے اب کہاں سے لے کے آؤں عید کا دن ہے
بسیرا ہے یہاں کچھ دوستوں کے درمیاں میرا
انہیں کے ساتھ اب خوشیاں مناؤں عید کا دن ہے
تڑپ، چاہت ،محبت، درد ، ہمدردی و تنہائی
تجھے میں یاد اب کیا کیا دلاؤں عید کا دن ہے
یہ تنہائی مری مجھ سے علی الاعلان کہتی ہے
تجھے اے راز جی بھر کے رلاؤں عید کا دن ہے