فیملی پلاننگ دنیا بھر میں زیر بحث رہنے والا ایک ایسا موضوع ہے جو اپنی نوعیت کے اعتبار سے کافی اہم اور حساس موضوع ہے۔ اگر میں یہ کہوں کہ یہ قوموں کے عروج و زوال میں ایک اہم کردار ادا کرنے والا عنصر ہے تو بیجا نہ ہوگا کیونکہ افراد سے مل کر فیملی اور فیملی سے مل کر قوم بنتی ہے۔ اگر افراد کی تعلیم و تربیت فیملی لیول پر اچھی ہو تو قوم ترقی کی راہ پر گامزن ہوتی ہے وہیں اگر افراد کی تعلیم و تربیت فیملی لیول پر اچھی نا ہو تو قوم زوال کا شکار ہوتی ہے۔
تو اب یہ سمجھتے ہیں کہ آخر یہ فیملی پلاننگ کیا ہے؟ اور اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
عام طوپر مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ فیملی پلاننگ کا مطلب اور مقصد ہے دو بچے پیدا کرنا اور بس۔ اس لیے اس کو اسلام کے خلاف سمجھتے ہیں اور ان کا یہ سمجھنا درست بھی ہے کیونکہ بہت سے شاطر لوگوں نے فیملی پلاننگ کو اسی مفہوم کے ساتھ عام کرنے کی کوشش کی ہے جو کہ حقیقت پر مبنی نہیں جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ فیملی پلاننگ کے بہت سے اہم پہلو جو کہ اسلام کی نظر میں مستحسن اور کافی اہم تھے مسلمانوں نے نظر انداز کر دیے۔
*فیمیلی پلاننگ کے کے کچھ اہم پہلو*
۱) بچوں کی تعداد
۲) انکی صحت
۳) غذا
۴) تربیت
۵) تعلیم
۶) نکاح
ان پہلوؤں میں مجھے نہیں لگتا کہ کوئی پہلو اسلام کے خلاف ہے، ان میں سے ہر ایک پہلو کے لیے اسلام میں رہنمائی بلکہ تاکید آئی ہے۔
اب جہاں تک بات ہے بچوں کی تعداد کی اس میں کچھ لوگوں کو اختلاف ہو سکتا ہے لیکن فیملی پلاننگ کی جو تعریف WHO نے پیش کی ہے اس میں کہیں بھی یہ واضح نہیں ہے کہ بچوں کی تعداد صرف دو ہونی چاہیے۔ اس میں یہ کہا گیا ہے کہ بچوں کی تعداد ماں باپ اپنی مرضی سے طے کریں گے۔ ڈبلو-ایچ-او کی پیش کردہ تعریف کچھ اس طرح ہے :
An export committee of WHO define family planning in 1971 as ” *a way of thinking and living adopted voluntary on the basis of knowledge, attitudes, and responsible decisions by individuals and couples in order to promote health and welfare of the family group and thus contribute effectively to the the social development of a country* “
(Social Pharmacy Pg #32 . Thakur Publication)
بعض لوگوں نے پلاننگ کی تشریح میں دو بچوں کا نظریہ پیش کیا ہے تو ہمارے لیے یہ ضروری تو نہیں کہ ہر ایک نظریے کو فالو کریں جب کہ ہمارے پاس خدائی نظام حیات اسلام کی صورت میں موجود ہے۔
جس طرح سے دوسرے لوگوں کو اسلام کے پیش کردہ نظریے سے اختلاف کرنے کا حق ہے بالکل اسی طرح ہم کو بھی دوسروں کے پیش کردہ نظریے سے اختلاف کرنے کا پورا حق ہے بلکہ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ہر ایک نظریے کو اسلام کی کسوٹی پر پرکھیں اور اسلامی نظریہ پیش کریں اور عملی طور ثابت کریں کہ یہ کس طریقے سے انسانیت کے لیے فائدہ مند ہے۔
*بچوں کی تعداد کتنی ہو ؟*
اسلامی نظریہ : اسلام میں اولاد کی کثرت مطلوب اور محمود ہے،
کثرت آبادی کے ڈر سے پیدائش کو محدود کرنا نظام خداوندی میں دخل اندازی ہے۔
اِس دنیا کو بنانے والے خالق کو اگر یہ منظور ہوتا کہ ایک جوڑے سے دو ہی بچے پیدا ہوں تو ہر انسان کو ایسا بنا دیتا کہ اس میں صرف دو ہی بچے پیدا کرنے کی صلاحیت ہو۔
جن ملکوں نے دو بچوں والی پالیسی کو اپنے یہاں پر نافذ کیا آج ان کے لیے یہ درد سر بنا ہوا ہے۔ انکے دانشوران کی نیندیں اُڑی ہوئی ہیں کیونکہ کسی بھی ملک اور قوم کا سب سے بڑا سرمایہ نوجوان نسل ہوتی ہے جِس سے وہ محروم ہو چُکے ہیں اور یہ ماڈل پوری طرح سے فلاپ ہو چکا ہے۔
لیکن کثرت اولاد کے معاملے میں ماں اور بچے کی صحت کا خیال رکھنا ضروری ہے۔
*مانع حمل اشیاء کا اختیار کرنا* کسی عذر کی بنا پر عارضی مانع حمل تدابیر اختیار کرنے کی گنجائش ہے۔ مثلا:
عورت کمزور ہو اور حمل کا بوجھ اٹھانے کی طاقت نہ ہو،
بچے کی ولادت کے بعد شدید کمزوری لاحق ہونے کا خطرہ ہو،
دو بچوں کی ولادت کے درمیان مناسب وقفہ بنانے کے لئے وغیرہ۔
ساقط حمل اشیاء اختیار کرنا: عذر کی بنا پر چار ماہ سے پہلے حمل ساقط کرنے کی اجازت ہے مثلا کوئی عورت لمبے سفر پر ہو اور بچے کی جانی یا ایمانی نقصان کا خطرہ ہو تو ایسی صورت میں حمل ساقط کرنا جائز ہے۔ یا کوئی عورت حج کے سفر پر ہو اور دورانِ حج حمل ساقط ہونے کا ڈر ہو۔
نوٹ : منع حمل یا سقط حمل کے لئے کوئی ایسی تدبیر اختیار کرنا جس سے مرد یا عورت کی توالد و تناسل کی صلاحیت دائمی طور پر ختم ہو جائے، بالکل جائز نہیں۔
جس طریقے سے ولادتِ اولاد کے معاملے میں عورت کی صحت کا خیال نہ رکھنا عورت پر ظلم ہے اسی طریقے سے عورتوں کو بہت زیادہ مانع حمل دوائیں استعمال کرانا بھی عورتوں پر ظلم ہے کیونکہ اس سے بہت سی عارضی اور دائمی بیماریاں جنم لیتی ہیں مثلا شدید سر درد، متلی، بریسٹ کینسر، لیور ٹیومر، دل کی بیماری وغیرہ۔ ایسے ہی کنڈوم استعمال کرنے کی صورت میں کئی عورتوں کی جنسی خواہش کی پوری طریقے سے تکمیل نہیں ہوتی تو یہ بھی عورتوں پر ایک طرح کا ظلم ہے۔ اس سے عورتیں چڑچڑا پن اور ڈیپریشن کا شکار ہو سکتی ہیں۔
بچے کم ہوں یا زیادہ یہ اہم نہیں بلکہ اہم یہ ہے کہ ان کی تعلیم و تربیت کیسی ہو۔
کیا ان کے دل میں انسانوں کے لیے ہمدردی ہے؟
کیا وہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی تعلیمات پر عمل پیرا ہیں؟
کیا احکام خداوندی کے سامنے ان کی خواہشات پست ہوجاتی ہیں؟
کیا وہ رسول اللہ ﷺ کے مشن کو اپنا مشن سمجھتے ہیں؟
اگر نہیں! تو چاہے پھر ایک بچہ ہو یا دس وہ قوم، ملک اور اپنی فیملی کے لیے ناسور ہی بنیں گے۔
ایک ایسی فیملی جس میں دس بچے ہوں اور ان کی صحیح تعلیم و تربیت ہوئی ہو وہ لاکھ گنا بہتر اور افضل ہیں اس فیملی سے جس میں ایک ہی بچہ ہو اور وہ غیر تعلیم یافتہ اور غیر تربیت یافتہ ہو اور عیاشی میں زندگی گزار رہا ہو ۔