یوں تو ہردور اور ہرزمانے میں لاکھوں افراد علمی وادبی دنیا میں قدم رکھتے ہیں اور ان سے نصف یا اس سے بھی کم اس پرخارراہ کی طویل اور صبر طلب مسافت طے کرپاتے ہیں لیکن مسافران علم وادب کی اس بھیڑ میں بھی ان لوگوں کی تعداد محدود اور معمولی ہوتی ہے ,جو اپنے پیہم کوشش ,جہد مسلسل ,خلوص ,بے غرضی ,بے لوث خدمات ,ایثاروقربانی ,جذبۂ ہمدردی ,فکری گیرائی ,علمی گہرائی ,وسیع مطالعہ ,نادر اور انوکھے تصانیف کے ذریعہ ارباب فضل وکمال کے دلوں میں اپنی جگہ بنالیتے ہیں اور علم وفضل کے آسمان پر مانند آفتاب تادم حیات چمکتے رہتے ہیں اور جب ڈوبتے ہیں تو شفق چھوڑ جاتے ہیں –
یقینًا ان ہی اشخاص میں سے ایک ہمارے مشفق ومربی استاد ,کہنہ مشق ادیب ,صاحب طرز انشاپرداز ,عمیق العلم ,دقیق الفکر ,بیدار مغز ,دوربیں اوردور اندیش مفکر ,بسیار نویس اور سحر آفریں صاحب قلم ,مشک بار وعطر بیز زبان کے مالک ,ظریف طبع ,خوش مزاج ,جملہ سنج ,نکتہ آفریں اور وسیع القلب یگانۂ روزگار ,غیر معمولی آہنی عزم کے مالک ,تفکیری صلاحیت اور فولادی قوت کے حامل ,ترسیل کی ساحرانہ صلاحیت کے علمبردار ,رجال ساز وآدم گر ماہر تعلیم ,باکمال ,بافیض ,باتوفیق ,روشن ضمیر اور عصر آفریں استاذ پروفیسر ضیاءالرحمن صدیقی (شعبہ اردو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی )ہیں –
آپ سے پہلی مرتبہ دیدوشنید کاموقع اس وقت ملا جب اسی سال یعنی مئی 2022ء میں ایم اے سیکنڈ سمسٹر میں داخل ہوا,پہلے ہے ہی دن کی کلاس میں ان کی خوش اخلاقی ,ادائے دلفریبی , سخن دلنوازی ,جادو بیانی ,شیریں کلامی,ذرہ نوازی, فکری وعلمی گیرائی وگہرائی ,مشفقانہ برتاؤ ,مربیانہ سلوک ,ہمدردانہ رویہ ,مرتب ومدلل گفتگو اور تفھیم کے انوکھے اور نرالے انداز نے راقم کو ان کاگرویدہ اور مداح بنادیا ,
کاتب السطور پورے وثوق کے ساتھ کہ رہاہے کہ ان کی عزت وعظمت کاجونقش پہلے دن قائم ہوا , سمسٹر بھر اس میں ایک نقطہ برابر بھی کمی نہیں آئی ,بلکہ اس میں روز بروز اضافہ ہی ہوتاگیا اور اضافہ کایہ عمل تاحال جاری بھی ہے –
پروفیسر ضیاءالرحمن صدیقی نے تاریخی وعلمی شہر”امروہہ” کے ایک خوشحال ,زمیندار اور علمی گھرانے میں آنکھ کھولی , آپ کا سلسلہ نسب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے جاملتاہے – موصوف کے دادا کانام حافظ عبدالرحمن تھا جو فارسی کے عالم اور صاحب قلم ہونے کے ساتھ ساتھ ایک مشہور اور اچھے طبیب بھی تھے -آپ کے والد بزرگوار کو بھی فارسی اور اردو زبان پر دسترس حاصل تھا ,وہ کئی دہائی تک شعبہء تعلیم سے وابستہ رہے اور پرنسپل کے عہدے سے سبکدوش ہوئے ,گویا درس وتدریس آپ کاآبائی پیشہ ہے -والدہ کانام شاکرہ خاتون تھا جو نہایت دیندار ,پرہیزگار ,متقیہ ,پاکیزہ خصلت ,نیک طینت ,نرم دل ,بااخلاق ,ملنسار اور خوش مزاج خاتون تھیں ,والدہ ماجدہ کے زیر سایہ موصوف کی تعلیم وتربیت مکمل ہوئی ,اس پاکیزہ سایہ نے آپ کی شخصیت کو نکھارنے اور کندن بنانے میں نمایاں کردار اداکیا –
آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے وطن مالوف “امروہہ ” کے مقامی اسکولوں میں حاصل کی -انٹر میڈیٹ کا امتحان الہ آباد بورڈ سے اعلی نمبروں سے پاس کیا -بعد ازاں اعلی تعلیم کے لیے دہلی کارخت سفر باندھا -دہلی یونیورسٹی سے بی اے اور ایم اے اردو میں مکمل کیا -اس کے بعد جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی سے “تحریک آزادی کاتاریخی وسماجیاتی مطالعہ اردو نثر کی روشنی میں ” کے موضوع پر مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی –
رسمی تعلیم کی تکمیل کے بعد موصوف جامعہ ملیہ اسلامیہ ,نئی دہلی ,پنجاب یونیورسٹی چنڈی گڑھ, اندرا گاندھی نیشنل اوپن یونیورسٹی ,نئی دہلی میں درس وتدریس کے فرائض انجام دیتے رہے -دہلی یونیورسٹی میں یوجی سی فلیو پھر انڈین کونسل آف ہسٹوریکل ریسرچ کے پوسٹ ڈاکٹورل فیلوررہے -بعدازاں وہ یونین پبلک سروس کمیشن نئی دہلی سے منتخب ہوئے اور اردو ٹیچنگ اینڈ ریسرچ سینٹر ,سینٹرل انسٹی ٹیوٹ آف انڈین لینگویجز (حکومت ہند)کے شعبہ تدریس سے وابستہ ہوگیے اور اعلی سطح پر تحقیقی کام کرتے رہے -چندبرس موصوف نے سرسید پوسٹ گریجویٹ کالج اورنگ آباد ,مہاراشٹر میں پرنسپل کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں -وہ ریسٹرن ریجنل لینگویج سینٹر بھونیشور اور نارتھ ایسٹرن ریجنل لینگویج سینٹر گوہاٹی میں (حکومت ہند ) میں پرنسپل کے عہدوں پر فائز رہے -بعدازاں سینٹر فار پروفیشنل ڈیولپمنٹ آف اردو ٹیچرس (اردو اکادمی )علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ڈپٹی ڈائرکٹر منتخب ہوئے -ان دنوں ڈاکٹر صدیقی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہء اردو میں ایک مقبول ومحبوب پروفیسر کے عہدے پر فائز ہیں اور درس وتدریس کے فارئض انجام دے رہے ہیں۔
پروفیسر ضیاءالرحمن صدیقی جہاں ایک طرف نامور اور عظیم محقق ومصنف ہیں تو وہیں دوسری طرف وہ جلیل القدر معلم ومربی بھی ہیں -وہ جس موضوع پر لکچر دتیے ہیں یا جسے وہ سمجھاتے ہیں, صرف اسی پر اکتفا نہیں کرتے ;بلکہ اس کے متعلقہ مباحث پر بھی کھل کر بحث کرتے ہیں۔ اور اس طرح وہ مکمل فن پڑھادیتے ہیں اور فن بھی اس طرح پڑھاتے ہیں کہ دسیوں کتابوں کا خلاصہ ایک مختصر سے لکچر میں پیش کرکے اس کی ساری گھتیوں کو چٹکیوں میں سلجھادتیے ہیں اور طالب کے ذہن میں موجود سارے اعتراضات واشکالات کا تشفی بخش جواب انتہائی سہل انداز اور مختصر وقت میں اس طرح پیش کردیتے ہیں کہ طلبہ وطالبات عش عش کرنے لگتے ہیں اور خوشی ومسرت سے ان کا پزمردہ چہرہ یکلخت کھل اٹھتاہے –
راقم نے کئی کتابوں میں پڑھا کہ (لایکون المعلم معلما حتی یکون ملھما) کہ کوئی بھی استاد صحیح معنی میں استادکہلانے کا مستحق اسی وقت ہوسکتاہے جبکہ اسے یہ الہام ہونے لگے کس مضمون کو کیسے سمجھانا ہے ,زبان کیسی استعمال کرنی ہے ,کہاں طوالت سے کام لینا ہے اور کہاں اختصار سے وغیرہ وغیرہ اور یہی باتیں ایک استاد کو طلبہ میں مقبول ومحبوب بناتی ہے – یہ صفات استاد محترم پروفیسر ضیاءالرحمن صدیقی کے اندر بدرجۂ اتم موجودہیں -ان کا مطالعہ بہت وسیع اور علم کافی گہرا اور مستحضر ہے ; اس لیے آپ جس قسم کابھی سوال ان سے پوچھیں فورا آپ کو قابل اطمینان اور تشفی بخش جواب مل جائے گا –
موصوف کو تدریس سے غیر معمولی دلچسپی اور فطری لگاؤ ہے ,درسگاہ میں ان کی پابندی سے حاضری کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ سبق پڑھانا اورکتاب کی تفھیم ان کے لیے سامان فرحت ہے اور اس میں انہیں بے حد مزہ آتاہے –
آپ انتہائی عرق ریزی ,جانفشانی ,دلسوزی, جگر کاوی,تندہی اور دلجمعی سے اس طرح سبق پڑھاتے اور سمجھاتے ہیں کہ لاپرواہ اور پڑھنے لکھنے سے دلچسپی نہ رکھنے والے طلبہ وطالبات کے لیے سبق کی تفہیم نہ صرف آسان ہوجاتی ہے بلکہ وہ اس کے حافظہ میں محفوظ بھی ہوجاتاہے – یقینا یہ وہ صفات ہیں جو ایک سچے ,مقبول اور کامیاب معلم کے لیے ضروری ہیں,ورنہ علم کاسمندر ہونے کے باوجود ایک استاد اپنے چشمہ شیریں سے تشنہ لب طلبہ کی تشنگی بجھانے سے قاصر رہتاہے –
موصوف کی درسی انفرادیت کے خاکہ میں یہ بات بھی آتی ہے وہ پڑھانے کے ساتھ ساتھ طلبہ وطالبات کی نشست وبرخاست ,حرکت وسکون ,رفتار وگفتار ,طرزعمل اور ہر قول وفعل میں اس کے برتاؤ پر عقابی نگاہ رکھتے ہیں -وہ طلبہ وطالبات کی کج روی اور ناروا گفتاری پر قولا تادیب اور سرزنش بھی کرتے ہیں –
وہ صرف طلبہ وطالبات کی تعلیم وتربیت پر مکمل توجہ دینے پر اکتفا ہی نہیں کر تے ہیں ,بلکہ جب کوئی طالب علم ان کی سرپرستی میں رہ کر, ان کی ہدایات کو بروئے کارلاکر شب وروز محنت ولگن سے پڑھتاہے اورعلمی وادبی دنیا میں اپنا نام روشن کرتاہے , تو آپ کواس سے اتنی خوشی ہوتی ہے جتنی کہ باپ کو اپنے اکلوتے بیٹے کی کامیابی وکامرانی پر ہوتی ہے ,دوران اسباق ان کی تعریف کرتے ہیں ,سراہتے ہیں اور موجود طلبہ وطالبات کو بھی اس روش کو اپناکر مستقبل میں کچھ بننے اور کرگزرنے کی تلقین کرتے رہتے ہیں –
ان کے اس درجہ تدریسی محنت اور سعی کو دیکھنے والا یہ کہنے پر مجبور ہوجاتاہے کہ خدائے حکیم نے انہیں تعلیم وتربیت کی دنیا میں ممتاز رول کی ادائیگی اور انقلاب آفریں عمل کی انجام دہی کے لیے پیدا کیاہے –
پروفیسر ضیاءالرحمن صدیقی کو بچپن ہی سے شعر وادب اور مضمون نگاری سے غیر معمولی دلچسپی اور بے حد لگاؤ رہاہے ,بلکہ اگر یہ کہاجائے کہ ان کا اردو سے ماں کے دودھ کے مانند رشتہ رہاہے تو مبالغہ نہ ہوگا ,انہوں نے اب تک کی زندگی کابیشتر حصہ اردوزبان وادب کے گیسوئے برہم کو سلجھانے اور سنوارنے میں صرف کیاہے –
موصوف نے بہت لکھا اور خوب لکھا ,ایک ایک لفظ اور جملہ کو صحت کے معیار پر پرکھ اور تول کر لکھا اور ادب کے جس پہلو پر بھی لکھا یا لکھ رہے ہیں ,ان کی تحریر حرف آخر گردانی گئی ہے اور گردانی جائے گی;کیوں کہ وہ کثرت مطالعہ ,باریک بینی سے چھان بین اور بسیار غوروفکر کے بعد اس طرح کوہ کنی کے ساتھ لکھتے ہیں کہ موضوع کے سارے گوشے آشکارہ ہوتے چلے جاتے ہیں۔
موصوف کی تحریریں مہکتی اور ندرت آمیز عبارتوں , سحر انگیز اقتباسات, سماں باندھتی تشبیہات , جادو انگیز, اثر آفریں اور شعلہ بار تعبیریں ,پیرایہ بیان کے تنوع اور ہمہ گیریت ,قلم کی رعنائیاں اور جلوہ ریزیاں ,معلومات کے استناد اور لفظیات کی دلکشی وشیرینی سے عبارت ہے -تراکیب کی ندرت ,اسلوب کی جودت وآفاقیت ,زرخیز ذہانت کی گود میں پلی ہوئی سوچ اور عالمانہ فراست کی انفرادیت ,انداز بیاں کی تحیر خیزی ,زبان کی حلاوت وشگفتگی ,موضوعات کی دلآویزی وسحر خیزی ,طرزنگارش کی دلکشی وجمال آرائی اور ترتیب کا انوکھاپن کے ذریعہ وہ اپنے ہمعصر دوسرے قلمکاروں سے بلند وبالا ہوکر اپناایک ایسا منفرد شناخت قائم کر چکے ہیں کہ بڑے بڑے شاہانِ قلم و زبان اپنااپناتاج شہنشاہی بطورخراج عقیدت ان کی قدموں میں ڈال کر ناقابل بیان فرحت وسرور محسوس کرتے ہیں۔
ان کی اسلوبی خصوصیت کامطالعہ بتاتاہے کہ وہ صاحب طرز ادیب ہیں ,جس طرح مولانا عبدالماجد دریاآبادی اور شبلی نعمانی جیسی شخصیت کا اپنا ایک اسلوب تھا ,اسی طرح پروفیسر صدیقی کا بھی اپنا ایک دلکش اور دلنشیں اسلوب ہے ,وہ اپنی تحریروں میں زیادہ تر اپنے تراشے ہوئے جملے استعمال کرتے ہیں جو فارسی واردو کے حسین امتزاج سے مرکب اور نادر تشبیہات واستعارات سے مزین ہوتے ہیں -وہ نقالی اور ادبی سرقہ سے قطعاَ ناآشناہیں -استاد موصوف ومحترم کا اس پس منظر میں ایک شعر ہے ,جس کے وہ خود سو فیصد مصداق ہیں ,ایسا لگتاہے کہ اس شعر کی تخلیق انہوں نے خود کے لیے کی ہے –
ذہن ودل میں فکروفن کا اک جہاں رکھتاہوں میں
عام لہجوں سے الگ طرزبیاں رکھتاہوں میں
ہم لوگوں کو چند انشائیوں کا جوانہوں نے تجزیہ کرایا ہے ,اس سے چند اقتباسات ملاحظہ کریں -ادبی ذوق اور تخلیقی مزاج کا انسان جس کا ایک ایک جملہ اور فقرہ پڑھ کر بے پناہ لطف اندوز ہوگا اور اس کی شیرینی ولطافت ,تحیر خیزی اور سحر انگیزی سے مسحور ہوکر جھومنے لگے گا –
“یوسفی کااختراعی اورندرت آمیز ادبی بیانیہ ,الفاظ کی دروبست ,جملوں کی ساخت ,خیالات اور افکار کاسیل رواں ,لفظوں اور محاوروں کابرجستہ وبرمحل استعمال اور زبان کے چٹخارے قاری کو مکمل تحریر پڑھنے پر آمادہ کردیتے “
(ماخوذ از جنون لطیفہ : ایک تجزیہ –
مبصر :پروفیسر ضیاءالرحمن صدیقی )
“رشید صدیقی کی دانشورانہ بصیرت ,عالمانہ فکر ,فن کارانہ اسلوب اور مدبرانہ انداز بیان جب انشائیہ کی شکل میں سامنے آتاہے تو جزئیات کے حیرت انگیز انکشافات ہونے لگتے ہیں۔”
(ماخوذ از چارپائی کاتجزیہ
مبصر:پروفیسر ضیاءالرحمن صدیقی)
“پطرس کابے پناہ تخلیقی اظہار ,افکار وخیالات کی دروبست ,قلم کاسیل رواں ,مختلف علوم وفنون اور ادبیات کی جانب اشارے تحریر کو ظرافت کے دلچسپ انداز کے ساتھ عالمانہ اور دانشورانہ طرز اختیار کرنے پر مجبور کردیتے “
ماخوذ از کتے کاتجزیہ
(تجزیہ نگار :پروفیسر ضیا ءالرحمن صدیقی)
یہ چند پیراگراف میں نے نمونے کے طورپر پیش کردیا ہے ,ورنہ ان کے سارے پیراگراف اور اقتباسات سحر کاری اور تحیر خیزی سے پر ہوتے ہیں۔
یوں تو موصوف نے صنف ادب کے تقریبًا ہرمیدان میں قدم رکھا اور بہت جلدہی اس میدان کے مشاق اور ماہر سہشوار بن کر علمی وادبی دنیا کو انگشت بدنداں کردیا -لیکن انہیں جس صنف سے فطری لگاؤ ہے ,وہ ہے تحقیق وتنقید -نیز تحقیق کے لیے جس مزاج ,ذوق اور لیاقت کی ضرورت ہوتی ہے وہ بھی ان میں بدرجہ اتم موجودہے ; اس لیے وہ تحقیق کی دنیا میں ایک بے مثال اور عظیم الشان محقق کی حیثیت سے شہرت رکھتے ہیں۔
انہیں تحقیق کی پرپیچ اور پرخار وادی سے اسی نوعیت کاعشق ہے ,جس نوعیت کا ایک عاشق کو اپنے معشوق سے ہوتاہے ,جس طرح ایک سچے اور حقیقی عاشق کو معشوق کی ایذارسانی میں بھی لطف اور مزہ آتاہے ,جیساکہ مرزاغالب نے مندرجہ ذیل شعر میں کہاہے-
واحسرتاکہ یار نے کھینچا ستم سے ہاتھ
ہم کو حریص لذت آزار دیکھ کر
اسی طرح استاد موصوف بھی علم وتحقیق کے باب میں جتنا پریشان ہوتے ہیں ,اتناہی انہیں مزہ آتاہے-ایسالگتاہے کہ تحقیق کی پرپیچ اور پرخار راہ کے سفر میں جانفشانی وعرق ریزی ان کے لیے دنیا کا سب سے محبوب مشغلہ ہے –
وہ اب تک تحقیق وتنقید اور اردو ادب کے مختلف النوع موضوعات پر ڈیڑھ سو سے زائد مضامیں ومقالات لکھ چکے ہیں ,جو ہند وپاک کے معیاری رسائل وجرائد میں شائع ہوکر قارئین سے دادوتحسین وصول کرچکے ہیں۔ نیز ڈیڑھ درجن سے زائد کتابیں بھی منظر عام پر آچکی ہیں ,جس کے مشمولات کے حسن وجمال ,مواد کی کثرت ,علمی,فکری اور فنی ذخائر کی قارئین نے منھ بھر بھر کر ستائش کی ہے اور کررہے ہیں۔ جن میں چند اہم کتابوں کے اسماء درج ذیل ہیں –
-تحریک آزادی اور اردو نثر
2-تحریک آزادی میں اردو صحافت کا حصہ
3 شہباز امروہوی :فن اورشخصیت
4-شہیدان جنگ آزادی
5-اقبال سہیل کافن
6 – اردو ادب کی تاریخ
7-معروضات
8-اردو ہندی ڈکشنری
موصوف نے تحقیق وتنقید کے حوالے سے اردو زبان وادب میں نئے نئے امکانات اور نئے نئے گوشے تلاش کرنے کی کوشش کی ہے اورکررہے ہیں –
یقینًا پروفیسر ضیاءالرحمن صدیقی ادب کا وہ خورشید تاباں ہیں ,جو نصف النہار کے وقت چمکتے ہوئے آفتاب کے مانند آسمان ادب پر اس طرح جلوہ نماہے کہ اس کی تابانی سے پوری اردو دنیا منور ہے-
پروفیسر ضیاءالرحمن صدیقی صاحب بصیرت ادیب ,نقاد اور محقق ہونے کے علاوہ ایک اچھے شاعر بھی ہیں-انہیں شاعری کاشوق نہیں ہے ,بس تفنن طبع کے لیے شعر تخلیق کرتے ہیں۔ انہوں نے غزل اور نظم کے علاوہ قطعات بھی کہے ہیں ,ان کی غزلیں آل انڈیا ریڈیو سے نشر ہوچکی ہیں۔
یوں تو اردو شاعری محبوب سے محبت کا اظہار ,بوس وکنار کی باتیں ,عاشق ومعشوق کی بے وفائی اور دل ٹوٹنے کا بیان ,جیسے موضوعات سے بھری ہوئی ہے ;لیکن پروفیسر ضیاءالرحمن صدیقی کی شاعری میں اس قسم کے مضامین کمیاب ہیں –
انہوں نے زندگی کے حقائق ,تلخ تجربات,کائنات کے راز ,انسان کی پیچیدہ تہ داریوں ,دنیا اور اس کے عجائبات کاہمہ گیر اور باریک بینی سے مطالعہ کیاہے ;اس لیے انہوں نے اپنی شاعری میں ہمت وحوصلہ ,محبت وہمدردی ,حب الوطنی ,استغناوبے نیازی ,خودداری وخودشناسی ,حکمت ودانائی ,جوش جنوں وآبلہ پائی ,کامرانیوں کے راز ,محرومیوں کی تلافی کے اسباب اور زندگی کے سچے اور تلخ حقائق کو پیش کیاہے -چناں چہ حقیقی صورتحال جس کا آپ سب نے بھی تجربہ کیاہوگا ذیل کے شعر میں ڈاکٹر صدیقی کی زبانی سنتے چلیں –
یہاں پہ سادہ مزاجی سے کچھ نہیں ملتا
تم اپنی بات کو کہنے کا اک ہنر رکھنا
اپنے ہمت وحوصلے کی تصویر اورکٹھن حالات سے نبردآزمائی کازندہ نقشہ کتنے خوبصورت اور دلربا انداز میں کھینچاہے ,آپ بھی پڑھیے اور داد دیجیے –
ٹوٹنا ,گرنا ,بکھرنا میری عادت میں شمار
بلبلہ ہوکر بھی بحر بے کراں رکھتاہوں میں
عربی کا ایک مشہور مقولہ ہے “البلاء موکل باالمنطق ” کہ انسان کو بہت سی پریشانیوں اور مصائب کاسامنا اس لیے کرنا پڑتاہے کہ وہ غوروفکر کیے بغیر ذہن ودل میں آنے والی ہربات زبان سے ادا کردیتاہے ,نیز زیادہ بولنے سے سماج ومعاشرہ اور ملنے جلنے والوں میں اس کی قدر واہمیت بھی گھٹ جاتی ہے ;انسان کو کم بولناچاہیے اور طویل غوروفکر کے بعد اپنی زبان کو جنبش دیناچاہیے -اس مضمون کو انہوں نے کلاسیکی روایت کی پاسداری کرتے ہوئے جدید لب ولہجہ میں نہایت خوبی کے ساتھ اس طرح پیش کیا ہے۔
ہم اپنے لہجہ کو بے آبرو نہیـــــــں کرتے
اس لیے تو بہت گفتگو نہیں کر تے
موجودہ دور میں نفرت کابول بالا اتنازیادہ ہوگیا ہے کہ اس کے مقابلے میں محبت کاروز کم پڑگیاہے اور نفرت کے علمبرداروں کے عمل سے ایسا لگتا ہے کہ وہ محبت کانام ونشان مٹاکرہی دم لیں گے ,لیکن پروفیسر صدیقی کا ماننا ہے کہ کوئی دنیا سے محبت کو مٹانے کی لاکھ کوشش کرلے ,لیکن اسے اپنے اس سعی بد میں کبھی کامیابی نہیں مل سکتی ہے۔ اس لیے وہ اپنے اس خیال کاعلی الاعلان اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں۔
محبتوں کاگھنا یہ شجر رہے گا سدا
یہ وہ درخت ہے جس پر ثمررہے گا سدا
جو اس کی شان میں اک حرف کہ دیاتھاکبھی
یہی وہ حرف ہے جو معتبر رہےگا سدا
حب الوطنی کاجذبہ جب ان کے اندر موجزن ہوتاہے تو وہ اپنے اس جذبہ کو اس طرح شعر کاجامہ پہناتے ہیں کہ قاری بھی ان میں پوشیدہ وطن کے تئیں بے پناہ قلبی محبت محسوس کرنے لگتاہے –
جن شہیدوں نے کیا اپنالہو دیش کے نام
آج ہم اہل وطن کرتے ہیں ان سب کو سلام
ذرے ذرے کی حفاظت میـں جو قربان ہوئے
مادر ہند کی عظمت کے نگہبان ہوئے
پروفیسر صدیقی نے اپنی شاعری میں مناظرفطرت اور مظاہر قدرت کی جھلکیاں بھی نہایت شاندار اور جاندار انداز میں دکھلائی ہیں -موصوف چونکہ شاعروں میں علامہ اقبال سے بہت زیادہ متاثر ہیں ;اس لیے انہوں نے بھی اپنی مختصرسی شاعری میں تقریباان تمام موضوعات کو پیش کرنے کی سعی بلیغ کی ہے جسے علامہ نے پیش کیا ہے۔ مناظر فطرت کے حوالے سے چند اشعار دیکھیں –
خدا نے اپنی دنیا کو سجایاہے سنواراہے
فلک کو چاند اور خوبصورت ستاروں سے
پہاڑوں سے زمیں کی سمت بہتے آبشاروں سے
زمیں پر جابہ جا اگتے ہوئے ان سبزہ زاروں سے
خلاصہ یہ کہ پروفیسر ضیاءالرحمن صدیقی کی شعری کائنات اگرچہ محدود ہے ,لیکن اس کے باوجود اس کابغور مطالعہ کرنے کے بعد اس بات کا اعتراف کرنا پڑتاہے کہ انہوں نے تقریبًا تمام بڑے شاعروں کی اہم خصوصیت کو اپنی شاعری میں برتنے اور پیش کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے -ان کی شاعری میں کہیں میر کااحساس دردوغم ,غالب کی ظرافت ,حالی کی سنجیدگی اور داغ کاسوز نظر آتاہے تو کہیں مومن کی نزاکت ,اصغر کی تپیدگی اور اقبال کی بلند آہنگی اور اڑان کااحساس ہوتاہے –
پروفیسر ضیاءالرحمن صدیقی تحقیـــق وتنقید اور شعر وشاعری کے علاوہ ترجمہ نگاری سے بھی گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔ ترجمہ نگاری ایک فن ہے جسمیں انتقال معنی کے ساتھ انتقال مفہوم وفکروخیال بھی ہوتاہے ,زبان وادب میں اس کی روایت بہت قدیم ہے ,یہ ایک انتہائی محنت طلب فن ہے -اس کاسب سے بڑاتقاضہ یہ ہے کہ جس کتاب یامضمون کاترجمہ کیاجارہاہے ,ترجموں کے ذریعہ قلمکار کے مکمل خیال اور فکر کوپیش کردیاجائے اوریہ اسی وقت ہوسکتاہے جب ترجمہ نگار وہ زبان جس سے وہ ترجمہ کررہاہے اور وہ زبان زبان جس میں وہ ترجمہ کررہاہے ,ہر دو پر مکمل دسترس رکھتاہو -پروفیسر صدیقی کو اردو ,ہندی اور انگریزی تینوں زبانوں پر یکساں مہارت حاصل ہے ;اسی لیے وہ علمی وادبی حلقوں میں ایک کثیراللسان اسکالر اور محقق کی حیثیت سے شہرت رکھتے ہیں۔ کئی زبانوں میں مہارت رکھنے کی وجہ سے ہرزبان کے صحیح متبادل کی جان کاری میں انہیں آسانی ہوتی ہے اور ان کے تراجم ان نقائص سے بالکلیہ پاک ہوتے ہیں, جن سے صرف ایک زبان کی جان کاری رکھنے یاکئی زبانوں کی ناقص معلومات رکھنے والوں کے تراجم آلودہ ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر صدیقی نے ساہتیہ اکیڈمی ,دہلی کے تحت بعض کہانیوں کاانگریزی سے اردو میں ترجمہ کیاہے -ان کی مترجم کہانیاں ساہتیہ اکیڈمی کے تحت شائع کتاب “عصری ہندوستانی کہانیاں ” میں شامل ہیں ,اسی طرح Hsuang Tsang Journey to India کا ترجمہ “ہیون سانگ کاسفر ہندوستان” کے نام سے اور Our Trees Grow in Dehra کاترجمہ “دون کاسبزہ” کے نام سے انگریزی سے اردو میں کیاہے ,جو 2007ء میں ساہتیہ اکیڈمی کے تحت شائع ہوکر منظر عام پر آچکاہے ,اس معیاری اور بلند پایہ ترجمہ کو ادباءومحققین نے قدر کی نگاہ سے دیکھا ,سراہااور بے حد پسند کیاہے –
پروفیسر صدیقی کو تحقیق کے ساتھ ساتھ ترجمہ نگاری سے بھی شروع ہی دلچسپی رہی ہے۔ انہوں نے گورنر ریاست ہماچل پردیش کے اردو مترجم کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دی ہے -کئی اصناف ادب میں موصوف کی مہارت تامہ ان کی غیر معمولی ذہانت اور محنت شاقہ کاپتہ دیتی ہے۔
پروفیسر ضیاءالرحمن صدیقی غیر معمولی تواضع وانکساری , بے نظیر حلم وبردباری , سادگی وبے نفسی , آہستہ روی, نرم گوئی ,سنجیدگی ,اپنے ہم جنس انسانوں کے تئیں اخوت وہمدردی ,شیریں گفتاری ,بلند اخلاقی ,خودداری وخودشناسی ,حکمت ودانائی, شرافت وپاکبازی اور اس کے علاوہ نہ جانے کتنے اوصاف حمیدہ سے متصف مرنجامرنج اور انسیت شعار انسان ہیں –
حسد ,کینہ ,بغض ,عداوت , دشمنی ,نفرت ,سنگ دلی ,سخت گیری ,تلخ گوئی اور ترش روئی سے وہ قطعا ناآشناہیں -ان کی زبان ودل میں یکسانیت ,لہجہ میں صفائی ,بات میں ترتیب وہم آہنگی,الفاظ میں خوداعتمادی ,گفتگو میں بلا کی شایستگی و جماؤ اور حرکت وسکون میں نظم وضبط پائی جاتی ہے۔ نام ونمود اورشہرت وریاسے دور انتہائی خاموشی کے ساتھ وہ صرف کام کرناجانتے ہیں اور کام ہی ان کے نام اور شہرت دوام کاذریعہ ہے -شان وشوکت, کروفر ,ظاہری ٹیپ ٹاپ اور تام جھام سے انہیں سخت نفرت ہے -ان کی ہیئت اور شکل وشباہت سے ان کے پڑھے لکھے ہونے کا اندازہ تو ہوتا ہے۔ لیکن وہ جتنے بڑے ہیں اتنے بڑے ہونے کا قطعا اندازہ نہیں ہو پاتاہے – علمی طنطنہ ,احساس علم سے پیداشدہ غرور اور فکری کجی سے ان کاسینہ پاک ہے -وہ اپنے سے کم علم اور کم عمرپربھی نہ کبھی علمی دھونس جماتے ہیں اور نہ ہی بڑائی کارویہ اپناتے ہیں -بڑوں کی مداحی ,خردوں اور شاگردوں کی حوصلہ افزائی ان کا امتیازی وصف ہے –
پروفیسر ضیاءالرحمن صدیقی کے ملنے جلنے کاانداز بھی بالکل جداگانہ ,دلفریب اور دلربا ہوتاہے , وہ کسی سے اپنی موہنی صورت ,ادائے دلنوازی ,نرم خوئی ,خندہ روئی ,کشادہ قلبی ,کھلے پن اور بے تکلفانہ انداز سے اس طرح ملتے ہیں کہ ملاقاتی پہلے ہی ملاقات میں ان کے اخلاق کامداح ,شخصی عظمت کاقائل اور علمی بڑائی کامعترف ہوجاتاہے اور اپنے اندر ان کی ذات کے تئیں عجیب گرویدگی ,فریفتگی اور وارفتگی پاتاہے – ان سے ملنے یا انہیں فون کرنے کے لیے پہلے سے وقت لینے یا کسی خاص وقت کی پابندی جیسی ایک قسم کی پریشانی سے دوچار ہونانہیں پڑتاہے ,آپ جب بھی ان سے ملنایابذریعۂ موبائل بات کرناچاہیں ,بآسانی مل سکتے اور بات کرسکتے ہیں۔ وہ آرام ,مطالعہ یاکسی اور مصروفیت ومشغولیت کا غذر پیش کرکے ملنے سے گریز نہیں کرتے ہیں۔ جیساکہ عام طور پر اکثر بڑوں کی یہ عادت ہوتی ہے; جسکی وجہ سے چھوٹوں کو اپنے بڑوں سے اکثر اس کی شکایت رہتی ہے –
جس طرح استاد محترم کادل بالکل پاک وصاف ہے ,اسی طرح ان کے چہرے سے بھی معصومیت ٹپکتی ہے -ان کے شریفانہ اور معصومانہ برتاؤ سے ایسالگتاہے کہ وہ مخالفین سے بھی کسی قول وفعل یاحرکت واقدام کے ذریعہ کسی طرح کا بھی انتقام لیناجانتے ہی نہیں ہیں –
شفقت ورحم دلی ایک ایسی صفت ہے ,جسکے ذریعہ لوگ ایک دوسرے کے دلوں میں بآسانی جگہ بنالیتے ہیں ;چناں چہ رسولﷺ کاارشاد ہے “جس چیز میں نرمی ہو وہ مزین اور خوبصورت بن جاتی ہے اور جس چیز میں نرمی نہ ہو وہ معیوب اور بدنمابن جاتی ہے”استادمحترم میں یہ صفت بھی مکمل طور پر پائی جاتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ان کے جاننے والے انہیں اپنے دلوں میں بسانے پر مجبور ہیں ,جہاں عوام وخواص کے لیے وہ ایک مشفق سرپرست اور ہمدرد بہی خواہ ہیں وہیں طلبہ وطالبات کے لیے ان کی حیثیت ایک شفیق باپ کی سی ہے ,طلبہ کی مزاج پرسی اور ان کی معمولی پریشانی کو سن کر یادیکھ کر تڑپ اٹھنا ان کی فطرت میں داخل ہے -ابھی ایک ماہ قبل کی بات ہے کہ ایک دن ان کی کلاس میں بجلی چلی گئی اور اس دن گرمی کی تپش اور حرارت شدید تھی ;جس کی وجہ سے “صوفی آزاد” نامی طالبہ دوران سر کی وجہ سے بیہوش ہوگئی ,جوں ہی استاد محترم کو اس کاعلم ہوا وہ بے چین ہوگیے فورا وہیں پر سبق روک کر مریضہ کی صورتحال دریافت کی ,ایمبولینس کے ذمہ دار کو فون کروایا اور کافی دیرتک اس کے پاس مضطرب وپریشان کھڑے رہے-اس معمولی واقعہ پر ان کی حددرجہ گھبراہٹ , بے چینی اور تڑپ کے ذریعہ طلبہ وطالبات کے تئیں ان کی ہمدردی وغمگساری کابخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ان کی ایک اہم اور نمایاں خصوصیت طلبہ وطالبات کی گاہے بگاہے ان کے ہمدرسوں اور دیگر کلاسوں اور شعبوں کے اسٹوڈنٹس کے سامنے تعریف اور حوصلہ افزائی کرنا ہے -وہ معمولی بات اور ادنی کارکردگی پربھی اپنے شاگردوں کی اس درجہ حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ کہ انہیں یہ احساس ہونے لگتاہے کہ انہوں نے کوئی بڑاکارنامہ انجام دیا ہے ,ان کی خردنوازی کاانداز بھی کچھ ایسا ہوتاہے کہ طلبہ وطالبات یہ یقین کربیٹھتے ہیں کہ جب انہوں نے زمانہٴ طالب علمی میں اتنابڑاکارنامہ انجام دے دیا ہے تو مستقبل میں وہ ضرور اتناکچھ کرسکتے ہیں جتناکہ ماضی میں بڑے بڑے لوگ نہ کرسکے -ان کی دوسری اہم خصوصیت مواظبت کے ساتھ وقت پر کلاس میں حاضری ہے -موسم گرم ہو یاسرد ,بارش کاہو یاطوفان کا ,طلبہ وطالبات کثیر تعداد میں ہوں یاقلیل تعداد میں (جیساکہ کسی تہوار یاچھٹی کے قریبی ایام میں یہ دیکھنے کو ملتاہے ;کیوں کہ زیادہ تر طلبہ چھٹی اور تہوار سے چند ایام قبل ہی گھر کے لیے رخت سفر باندھ لیتے ہیں اور کلاسیز شروع ہونے کے کچھ دنوں کے بعد حاضر ہوتے ہیں) بہر صورت وہ وقت پر فرض سمجھ کرکلاس میں حاضر ہوجاتےہیں ,جس طرح کہ جماعت سے نماز پڑھنے کا عادی نمازی جماعت سے نماز پڑھنے کو لازمی سمجھتاہے اور اس کے لیے وہ ہر ممکن کوشش کرتاہے ,جو اس کے بس میں ہوتاہے ,بقول استاد محترم کہ” میری تدریسی زندگی میں ہرسال کئی ایسے ایام آتے ہیں کہ جب میں درسگاہ پہنچتاہوں تو وہاں نہ کوئی طالب علم موجودہوتاہے اور نہ ہی درسگاہ کادروازہ کھلاہوتاہے -اور اس طرح حاضری دے کر میں اپنی روزی حلال کرلیتاہوں” -استاد موصوف کی ایک اور خصوصیت جو انہیں دوسرے اساتذہ اور اہل قلم سے ممتاز کرتی ہے ,وہ طلبہ اور اسکالر کے مابین کثرت سے اپنی تصنیف کردہ کتابوں کو تحفۃً تقسیم کرناہے -کوئی بھی طالب اگر ان کے چیمبر میں چلاجائے اور ان کی تصنیف کردہ کتابوں کا نسخہ موجود ہو تو وہ بطور ہدیہ ایک نسخہ ضرور دیتے ہیں۔
خود راقم کو انہوں نے مانگے بغیر اپنی کئی کتابیں تحفۃً دی ہے اور جن کتابوں کے نسخے موجود نہیں ہیں ,ان کے بارے میں کہا کہ چھپ کر آنے کے بعد آپ کو ضرور دوں گا -نیز خارج اوقات درس جب ان کے چیمبر میں دوچار اسٹوڈینٹس جمع ہوجاتے ہیں تو ایک مختصر سی مجلس قائم ہوجاتی ہے۔ جس میں جہاں وہ علم وفضل کاجام لنڈھاتے ہیں تو وہیں درمیان میں وقفہ وقفہ سے اپنی خوش طبعی اور ظرافت آمیز طبیعت کے تقاضہ کی وجہ سے مضحکہ خیز اور ضحک انگیز جملوں کے تکلم سے حاضرین کو کبھی زیرلب تبسم اور کبھی قہقہہ لگانے پر مجبور کردیتے ہیں۔ اور اس طرح وہ مجلس کے اختتام تک حاضرین کے ذہن ودماغ اور فکر وقلب پر مکمل طورپر حاوی رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی مجلس سے اٹھنے کے بعد ذہن وقلب اس پر مسرت وپر لطف مجلس میں اٹکارہتاہے اور ایسا محسوس ہوتاہے کہ پاؤں پیچھے کو کھنچ رہے ہیں۔
یقینًا استاد محترم جیسے لوگ تاریخ کے صفحات واوراق میں تو ملتے ہیں۔ لیکن انسانوں کے غول میں بسیار تلاش کے بعد بھی بمشکل اکا دکا مل پاتے ہیں۔