ایک خیالی خط

یہ کیسی گھٹن ہے؟ یہ کیسا جذبہ ہے؟ میری تو کچھ سمجھ نہیں آتا، شاید تم بھی نہ سمجھ سکو۔ یوں تو حسن مجھے متاثر کرتا رہا ہے لیکن تم حسین ہی نہیں، ذہین بھی ہو۔ تمہیں احباب دیکھ لیں اور میری حالت سمجھ لیں، تو میرا دعویٰ ہے کہ ان کی طرف سے جملہ اچھل کر آئے گا کہ ____ “حسن پر، مر مٹا۔” خیر، وہ اپنے اندازے کے مطابق غلط تو نہیں ہوں گے، لیکن میرا معاملہ دیگر ہے۔ میں تمہاری ذہانت اور اعلی ظرف اور تمہارے کردار کا دلدادہ ہوں۔ حسن تو ثانوی حیثیت رکھتا ہے۔ اور جہاں تک حسن کی بات ہے تو داد قبول کرو____ تم واقعی حسین ہو۔ ذہانت کا یہ عالم ہے کہ اس دقیانوسی خیال “حسین خواتین بے وقوف ہوتی ہیں” کو تمہاری شخصیت سرے سے رد کرتی ہے۔ اور ایک زوردار طمانچہ اس خیال پر ایمان رکھنے والوں کے چہروں پر رسید کرتی ہے۔

تمہاری ذہانت کا اندازہ تمہاری سخن فہمی سے بھی لگایا جا سکتا ہے۔ مرحبا کیسا نفیس انتخاب ہوتا ہے۔ شعر ایسے سناتی ہو جیسے ابھی تخلیق ہوئے ہوں۔ نہ کبھی سنا ہو، نہ پڑھا ہو۔ غالب میرے پسندیدہ شاعر ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتے مگر سمجھنے کی کوشش ضرور کرتا ہوں۔ خود غالب کہتے ہیں۔۔۔۔ “مدعا عنقا ہے اپنے عالم تقریر کا۔” فیض تمہارے پسندیدہ شاعر ہیں اور مجھے بھی فیض کو پڑھنے کی تحریک تم سے ہی ملی۔ ہر شاعر کا اپنا ایک مثالی محبوب ہوتا ہے۔ کلام فیض کے مطالعہ کے بعد میں نے غور کیا کہ ان کے مثالی محبوب کی ساری خوبیاں تمہاری ذات میں پنہاں ہیں، جو سب کو نظر نہیں آتیں۔ اگر فیض کے محبوب کا عکس ان کے کلام سے استفاده کرکے کینوس پر اتارا جائے تو ہو بہ ہو تمہاری شبیہہ ابھر آئے گی۔ بڑے وثوق سے یہ بات کہہ رہا ہوں کہ حسن اور انقلاب کا امتزاج اگر فیض کا خیالی ہے تو میں نے اسے تمہاری شکل میں چلتا پھرتا دیکھا ہے۔ظاہر ہے فیض بد قسمت نکلے کہ تا عمر جس محبوب کی تلاش میں رہے وہ ان کی وفات کے طویل عرصے بعد پیدا ہوا۔

توبہ ہے! ایسی مدح سرائی بھی کوئی کرتا ہے۔ تم کو لگ رہا ہوگا کہ اس کی نئی چال ہے، دام میں لانے کی۔۔۔۔ویسے تو چالیں میں نے خوب چلیں مگر، بقول ذوق۔۔۔۔ “جو چال ہم چلیں سو نہایت بری چلے۔” سچ کہوں تو ایسی بری اور ناکام چالیں چلنے میں مزا بھی خوب آیا۔ اگر اجازت ہو تو ایک شکایت کروں، وہ یہ کہ تم نے مجھ پر کبھی ظلم نہیں کیا۔ اب تم سوچتی ہوگی کہ یہ بھی خوب کہی کم بخت نے، کیسا ظالم بنانے پر تلا ہے۔ بھئی غالب کا یہ شعر سنو اور انصاف کرو۔۔۔۔

مرتا ہوں اس آواز پہ ہر چند سر اڑ جائے

جلاد کو لیکن وہ کہے جائے کہ ، ہاں اور

بتاؤ ذرا غالب کی اس خواہش کے آگے میری خواہش کی کیا حیثیت ہے؟ خیر، محبت کی انتہا اس سے بڑھ کر کیا ہو سکتی ہے کہ عاشق خود کو معشوق کے قابل نہ سمجھے۔ میں سمجھتا ہوں کہ تمہارے ظلم و ستم کے بھی قابل نہیں، محبت تو دور کی بات ہے۔

لو بھئی یہ کیا افسانوی باتیں کرنے لگا____ “ایسی باتوں سے وہ کافر بدگماں ہو جائے گا۔” معاف کرنا، جذبات کی رو میں بہہ گیا، ورنہ اس طرح کی فضول باتیں نہیں کرتا۔ اب اس سے پہلے کہ جذبات کا طوفان پھر سر سے گزرے، رخصت ہوتا ہوں، پھر لکھوں گا۔

احمر

٣ جون ٢۰٢٢

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here