عزیزم!
تم نے اپنے خط میں یہ اہم سوال اٹھایا ہے کہ سماج کا بنیادی مسئلہ آخر ہے کیا؟ مجھے خوشی ہے کہ تم نے غور فکر کے نتیجے میں پیدا ہونے والے سوالات پر دھیان دینا شروع کر دیا ہے- بیکن نے کہا تھا، ”جو زیادہ پوچھتا ہے وہ بہت سیکھتا ہے”- سوال ہمیشہ الفاظ کی صورت میں ہی نہیں ہوتے، بلکہ بعض اوقات یہ تاثرات اور نشانیوں کی صورت میں بھی ظاہر ہوتے ہیں- اس کائنات میں بے شمار اعلی سوالات ایسے ہیں جن کے جوابات کی کھوج میں انسان نے تجسس کی ان سرحدوں پر عمر گزار دی جہاں معلوم اور نامعلوم ہمیشہ بھیس بدل بدل کر اس کے سامنے آتے رہے اور وہ اپنے سوالات کے جوابات ڈھونڈتے ڈھونڈتے خود ایک سوال کی صورت اختیار کر گیا- ناصر عباس نیر نے ایک جگہ لکھا تھا، “سب سے بڑے تخریب کار وہ ہوتے ہیں جو سوال پوچھتے ہیں- جواب دینے میں تقریباً اتنے خطرات پنہاں نہیں ہوتے- کبھی کبھار ایک سوال ایک ہزار جوابات سے زیادہ دھماکہ خیز ہوتا ہے”- خیر بات دور نکل گئی- سماج کے اصل مسئلے کے تعین سے پہلے ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ سماج کیا ہے اور سماج کے بنیادی مسئلے کا تعین یا نشاندھی کرنے والے گروہ یا انفرادی شخص کے اپنے نظریات کیا ہیں-
تم یقیناً جانتے ہو گے کہ سماج سنسکرت کے دو الفاظ “سم” اور “آج” سے ماخوذ ہے- سم “ساتھ ساتھ یا اکٹھا رہنے” کو کہا جاتا ہے اور آج کے معنی “رہنا” ہے- اس سے ایک سادہ معنی اخذ ہوا کہ افراد کا اکھٹا ہو کر ایک ساتھ کسی جگہ رہنا سماج کہلاتا ہے- سماج کا مفہوم بہت وسیع ہے اور بے شمار لوگوں نے اپنے اپنے نظریے کے مطابق سماج کا مفہوم بیان کرنے کی کوشش کی ہے- یہاں مجھے مورس گنز برگ کے الفاظ یاد آ رہے ہیں، اس کے مطابق، ’’سماج انسانوں کا وہ گروہ ہے جو کچھ تعلقات یا رشتوں، اخلاق کے کچھ طریقوں کے ذریعے یک جا ہے، جو انھیں اُن لوگوں سے الگ رکھتے ہیں جو ان رشتوں سے وابستہ نہیں ہوتے اور اخلاقی طور پر ان سے الگ ہوتے ہیں”- اگر اس مفہوم کو دیکھا جائے تو ہمیں یقیناً یہ بات بھی طے کرنے کی ضرورت پڑے گی کہ ہم کس سماج کا ذکر کر رہے ہیں؟ کیا وہ سماج مغربی ہے یا پھر مشرقی، اور اگر مشرقی ہے تو کیا وہ سماج مذہبی تصورات کا دعویدار ہے یا الحاد کی جانب جھکاؤ رکھتا ہے؟ اسی طرح مسائل کا تعین کرنے والا گروہ یا انفرادی شخص کن نظریات کا قائل ہے- دنیا میں بے شمار نظریات اور تصورات موجود ہیں؛ کچھ وقت کے ساتھ ساتھ معدوم ہو گئے اور کچھ نظریات دیگر نظریات میں گڈمڈ ہو کر ایک نئے نظریے میں بدل گئے- تمہیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ ارسطوئیت، اشتراکیت، انکاریت، ایپی قوریت، پوسٹ امپریشنزم، پوسٹ سٹرکچرل ازم، پوسٹ ماڈرن ازم، فیمینزم، رئیلزم، نوفلاطونیت، نوکلاسکیت، نو کانٹ ازم اور ڈارون ازم سمیت بے شمار نظریات ایک ہی جگہ پر مختلف لوگوں میں موجود ہو سکتے ہیں- سماج کے بنیادی مسئلے کے تعین میں یہ نظریات لازماً اثرانداز ہوتے ہیں- لہذا کوئی بھی گروہ یا شخص سماج کے بنیادی مسئلے کا تعین تو کر سکتا ہے مگر اسے سماج کے تمام افراد کے مشترکہ بیانیے کے طور پر پیش نہیں کرسکتا؛ وہ اپنے ماحول، نظریے اور تصورات کے دائرے میں رہ کر ہی اس کا اظہار کرے گا-
میں اپنے سماج کی بات کروں تو بظاہر مسائل کا ایک پیچیدہ جال نظر آتا ہے- قدامت پرستی، عدالتی نظام، سماجی بیگانگی، تعلیمی فقدان، دروغ گوئی، مایوسی، خوف سمیت دیگر کئی مسائل کسی ناگ کی طرح منہ کھولے کھڑے دکھائی دیتے ہیں- یقیناً یہ مسائل باعث توجہ ہیں- جون ایلیا نے کہا تھا، “کسی گروہ کے مقسوم کو سمجھنے کے لیے یہ دیکھنا چاہیے کہ اس کا معیار عزت و شرف کیا ہے؟ وہ کن لوگوں کو اہم اور کن لوگوں کو غیر اہم جانتا ہے؟” ایک اور جگہ وہ لکھتے ہیں کہ، “ہمارے معیار اور ہمارے مثالیے بہت ہی رکیک اور پست ہیں”-
میں تمہیں بتاؤں میرے نزدیک سماج کا بنیادی مسئلہ علم و ادب، نظریات اور اخلاق سے بیگانگی ہے- ہمارے ہاں علم ہے تو عمل نہیں ہے- اخلاق سے ہم بالکل عاری ہیں- سماج کا اخلاق، اس کی ترقی اور خوشحالی میں نہایت اہم کردار کا حامل ہے- ابن رشد کے نزدیک جس طرح انسان کے ذہن میں نظری علوم ٹھوس کرنے کے لیے اسے تعلیم دینی پڑتی ہے، چیزوں کو یاد کروانا پڑتا ہے، اسی طرح انسانی رویے اور اخلاقی سسٹم تبدیل کرنے کے لیے انہیں مثبت اقدار کی عادت ڈالنی پڑتی ہے اور یہ عمل تدریج اور ترتیب کے ساتھ انجام پا سکتا ہے نہ کہ انقلاب سے- لہذا اخلاقی زوال سماج کی حیثیت اور مقام کو اندھیری گھاٹیوں میں لا پھینکتا ہے-
نظریاتی تنزلی کی بات کی جائے تو ہمارے سماج میں نہ تو حقیقی نظریات کا پرچار کیا جاتا ہے اور نہ ہی ان کو تسلیم کیا جاتا ہے- مثال کے طور پر ہمارا سماج اسلامی ہے اور ہم نے اسلام کے نام پر ہی جدوجہد کی تھی- اسے تسلیم کرنے کے لیے ہم ابھی تک کشمکش میں ہیں- ماڈرن بننے کا نعرہ لگا کر ہم حقیقی جدیدیت کی جانب تو نہیں بڑھتے بلکہ مغربیت کو ہی جدیدیت کا نام دے دیتے ہیں- اور ہم مغربی سماج کے بظاہر جدید نظام کو اپنے ہاں لاگو کرنے کی کوشش کرتے ہیں- تم ہی بتاؤ کیا کسی سماج کی نقل ہمیں اصل کی جانب لے جا سکتی ہے؟ کہیں پڑھا تھا کہ، “سماج کی ترقی کیا ایک خاص نہج پر پہنچے ہوئے علوم کی نقل سے ہوتی ہے یا اس اجتماعی ذہنی رویے کو پیدا کرنے سے ہوتی ہے جو علوم تخلیق کرتا ہے؟” سو تم جان لو کہ سماج کا بنیادی مسئلہ نظریات کا فقدان، علم و ادب سے بیگانگی اور اخلاقی پستی ہے- اخلاقی حالت سنورتی ہے تو خود شناسی کا عمل آسان ہو جاتا ہے اور خودشناسی کسی شخص کو اس کے مقصد، عزت نفس اور روحانی کیفیات سے واقفیت دلاتی ہے-
مجھے محسوس ہوتا ہے کہ جس بنیاد پر ہمارے سماج کی تشکیل ہوئی تھی وہ بہت واضح ہے اور اسی بنیاد کو بے بنیاد کرنے کی کوشش سماج کو نئے سے نئے مسائل میں الجھا کر ہمیں بے وقعت بنا رہی ہے- سماج کے بنیادی مسئلے پر مزید بہت کچھ لکھنے کا من ہے، لیکن طوالت اور تمہاری توجہ کے ارتکاز کے ٹوٹنے کا خدشہ مجھے یہیں اختتام کرنے پر مجبور کر رہا ہے-
خدا تمہیں سماج کے بنیادی مسئلے کی غلط نشاندھی کے شر سے بچائے
تمہارا اپنا۔۔۔
عبداللہ