ایک خط بعنوان ڈائری

!میرے عزیز

تم کہتے ہو کہ ڈائری لکھنا ایک بیکار مشغلہ ہے اور مصروفیت کے اس دور میں ڈائری لکھنا صرف مشکل ہی نہیں بلکہ وقت کا ضیاع بھی ہے- تمہارا کہنا یہ بھی ہے کہ ڈائری میں لکھے خیالات وقت کے ساتھ ماند پڑ جاتے ہیں اور ان کی کوئی اہمیت نہیں ہوا کرتی- میں تمہیں بتاؤں کہ میرے پاس ایک ڈائری ہے۔۔۔ اک ادھوری ڈائری، جسے میں کئی سالوں سے مکمل کرنے کی آرزو میں روز کچھ نہ کچھ اس میں لکھتا رہا ہوں- کل شب جب میں نے اس ڈائری کو کھولا تو مجھے احساس ہوا کہ اب اس ڈائری پر ثبت کرنے کو وہ جذبات نہیں مل پا رہے جو آغاز میں محسوس ہوا کرتے تھے- وہ احساسات اب ناپید ہیں، جو رات کے کسی پہر خیالوں پر چھا کر ڈائری میں کسی الہام کی مانند اترا کرتے تھے- اب ان دھڑکنوں کی آواز بھی نہیں آتی جو لکھتے ہوئے اچانک سنائی دیا کرتی تھی- محبت کا جنون، چاہتوں کی بارش، آرزؤوں کی تڑپ، بے قراری کی لو اور بے تابیوں کی وہ جھنکار اب سنائی ہی نہیں دے رہی، میں دیر تک قلم لیے یونہی بیٹھا رہا اور پھر ڈائری کے چند اوراق ماضی کی جانب پلٹے تو خیالات کو الفاظ کے مجسموں میں دیکھ کر مسکرانے لگا- میں نے بے ساختہ ان پر انگلیاں پھیریں تو یوں لگا جیسے ان اوراق پر ہاتھ رکھنے سے لفظوں کی تاثیر مسیحائی میرے رگ و پے میں سما گئی ہے- یوں میں دیر تک ورق و قلم کی کشمکش میں مبتلا رہا اور اچانک کہیں سے بے شمار نئے خیالوں کے سنگ مرر میرے سامنے عیاں ہونے لگے جن کو تراش کر شاہکار وجود میں لایا جا سکتا تھا- لاتعداد احساسات کی پرچھائیاں نمودار ہونے لگیں، جذبات شدت اختیار کرنے لگے- یوں قلم بے خود ہو کر صفحات کی پگڈنڈیوں پر لڑکھڑاتے ہوئے چلنے لگا اور میں نے ورق ماضی سے حال کی جانب ان صفحات کو پلٹا دیا اور اب تمہیں یہ خط لکھ رہا ہوں- میں سوچتا ہوں اگر یہ ورق نہ ہوتے، تو نئے خیالات کیسے جنم لیتے؟

 تم یہ تو جانتے ہی ہو گے کہ ڈائری نویسی کی اہمیت و افادیت ہر دور میں اہم رہی ہے- دنیا کے تقریباً ہر خطے میں کسی نہ کسی صورت اس کا چلن عام رہا ہے- تمہیں یہ بھی معلوم ہے کہ ڈائری لکھنا بیک وقت آپ بیتی بھی ہے اور جگ بیتی بھی- یہ ایک سوانحی ماخذ کے طور پر بھی اہمیت کی حامل ہو سکتی ہے اور یہ تاریخ کا ایک حوالہ بھی- بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ ڈائری میں فقط شاعری اور روزانہ کی مصروفیت کا احوال لکھنا ہی ڈائری نویسی کہلاتا ہے، مگر ایسا نہیں ہے- ڈائری میں جہاں ہم اپنی زندگی کے حالات تحریر کرتے ہیں، وہیں مختلف تجزیے بھی کیے جاتے ہیں- اکثر لوگ سوچتے ہیں کہ ڈائری لکھنے کا فائدہ کیا ہے؟ کوئی ایک فائدہ ہو تو بتاؤں تمہیں- یہ ہمیں اپنے دور کے دینی، علمی ، تاریخی ، سیاسی اور سماجی حالات کا علم دینے کی صلاحیت رکھتی ہے- ہم سے پہلے والوں نے کیا سوچا، کیسا محسوس کیا، کن تجربات سے وہ گزرے اور زندگی کی بھٹی میں کندن کیسے بنے، یہ سب ہمیں ڈائری ہی تو بتاتی ہے- ہنری ایس ٹرومین نے کہا تھا، “ڈائری لکھنا مجھے اپنی سوچ کو بہتر بنانے میں مدد دیتا ہے‘‘۔

میرے دوست! سمیریوں نے پختہ مٹی کی تختیوں پر اپنے روزمرہ احوال لکھنے شروع کیے تھے جن میں ضرب الامثال، داستانیں، دیومالائی کہانیاں، نظمیں وغیرہ شامل ہوا کرتی تھیں- گلگامش کا نام تو تم نے سنا ہی ہو گا جو اس ڈائری نویسی کی ایک مثال سمجھی جا سکتی ہے- اس کے علاوہ ہمیں اور بے شمار لوگوں کی ڈائریاں نظر آتی ہیں جنہوں نے اپنے اپنے زمانے میں کئی موضوعات پر اپنے خیالات قلم بند کیے جو آج ایک اہم دستاویز کی حیثیت رکھتے ہیں- ان ڈائریوں سے تاریخ، قانون، سماجیات، جغرافیہ، فکر و منطق، علم و ادب وغیرہ جیسے موضوعات پر قابل قدر معلومات حاصل ہوتی ہیں- اگر میں تمام ڈائریوں کا ذکر کرنا شروع کروں تو یہ خط بہت طویل ہو جائے گا، لیکن کچھ کا ذکر میں یہاں کر دیتا ہوں تاکہ تم ان تک پہنچ سکو اور مزید کی کھوج میں نکل سکو-

 میرے ذہن میں ابن البنا المراکشی، رابعہ العدویہ، محمد ابن احمد المقدسی، ابن جبیر، حورم سلطان، زینب فواض اور ملکہ عفت بنت محمد الثنیان کا خیال ابھرا ہے جن کی مذہبی، سیاسی، جغرافیائی اور تعلیم پر مبنی یاداشتیں ڈائری کی صورت موجود ہیں- اینی فرینک کی مشہور زمانہ ڈائری کے بارے تو تم نے سنا ہی ہو گا- ایک جگہ اس نے لکھا تھا،

“I still believe, in spite of everything, that people are truly good at heart.”

یہ ڈائری جنگ عظیم دوم کے بارے ایک اہم یاداشت ہے- ورجینیا وولف کی ڈائری بھی اہمیت کی حامل ہے جس میں اس نے لکھا تھا،

“The only way to overcome the inherent repetitiveness and banality of life is to be shocked, shocked again.”

جرمن ادیب مارٹن والسر کی ڈائری بھی پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے- انہوں نے اپنی ڈائری میں اپنے حالات و واقعات کو بہت دلچسپ پیرائے میں بیان کیا ہے۔ ایک اور مشہور ادیب پیٹرریو ہم کورف نے اپنے روز نامچے ’’نوٹاٹے‘‘ کے نام سے شائع کئے، جن میں وہ بڑی خوبصورتی سے اپنی ذات پر طنز کرتے ہیں۔مزید ڈائری نویسوں میں دستوئفسکی، آرتھر کریو، جان ایولین، وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں جن کی یاداشتوں کی بدولت ہی ہم بہت سارے تاریخی حقائق سے آشنا ہو پاتے ہیں- خط طویل ہو رہا ہے مگر اسے مختصر کرنے کی پوری کوشش کر رہا ہوں، لیکن یہ مکمل ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا- اچھا میں تمہیں تمہاری زمینوں یعنی برصغیر کے ڈائری نویسوں کے بارے بھی کچھ بتاتا چلوں- یہاں نظر کروں تو مجھے غالب، فیض، اقبال منشی عبدالکریم، مہادیوی ورما، خشونت سنگھ اور ناصر کاظمی سمیت دیگر کئی لوگ اپنی اپنی ڈائریوں پر جھکے اپنے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں- اقبال کی ڈائری ” Stray Reflections” سے مجھے کچھ سطور یاد آ رہی ہیں- انہوں نے اپنی ڈائری میں ایک جگہ لکھا، ” افراد اور اقوام کو فنا ہے لیکن ان کی اولاد یعنی خیالات و تصورات کبھی نہیں مرتے”- اسی طرح ایک اور جگہ انہوں نے لکھا، ” جہاں تک مرزا غالب بحیثیت ایک فارسی شاعر کے متعلق میری رائے کا تعلق ہے غالباً یہ ہندوستانی مسلمانوں کی طرف سے واحد مستقل عطیہ ہے- جس سے عمومی اسلامی ادب میں اضافہ ہوا- واقعی وہ ان شعراء میں سے ہے جن کی قوت متخیلہ اور ذہانت انہیں عقائد اور قومیت کی تنگ بندیوں سے بالاتر کر دیتی ہے- اس کی قدر افزائی کا حق ادا کرنا ابھی باقی ہے”- ناصر کاظمی کی ڈائری سے بھی کچھ سطور تمہیں پڑھاتا چلوں، انہوں نے اپنی ڈائری میں لکھا، “مسلسل ساز بجانے سے سازندے کی انگلیاں زخمی ہو جاتی ہیں- نے کے جسم پر انگلیوں کے نشان پڑ جاتے ہیں- نے کے سینہ میں سانسوں سے آگ بھڑکتی ہے اور دھواں اٹھنے لگتا ہے- جب آواز کے شعلے انتہا کو پہنچ جائیں تو آگ بجھنے کی منزل آتی ہے- اسی لیے شعلہ آواز کی تاب لانا ہر نے اور ہر نے نواز کے بس کا روگ نہیں”-

میں جانتا ہوں کہ خط طوالت اختیار کر چکا ہے، مگر کیا تم سمجھتے ہو کہ میرا یہ سب لکھا ایک جگہ اکٹھا کر دیں تو وہ میری ڈائری کہلائے گی؟ جی ہاں، بالکل یہی وہ ڈائری ہے جس میں خیالات، احساسات، علم و ادب اور معلومات سمیت کئی پہلوؤں کو میں محفوظ کرتا چلا جا رہا ہوں- اب یقیناً تم سمجھ چکے ہو گے کہ ڈائری لکھنا کیوں بے کار مشغلہ نہیں ہے- یہ وقت کا ضیاع نہیں بلکہ وقت کا مثبت استعمال ہے اور ایک تعمیری سرگرمی ہے- چلتے چلتے ایک اور اہم شخصیت کی ڈائری سے کچھ اور سطور میرے ذہن میں آنے لگی ہیں، ناصر عباس نیر نے “ہائیڈل برگ کی ڈائری” میں لکھا تھا، “اس لمحے ،جب کہ باہر رات کی خاموشی ہے، ایک ٹیبل لیمپ کی روشنی ہے،جس کے پاس میں یہ سطریں لکھ رہاہوں،مجھے یہ خیال آرہا ہے کہ ہم تاریخ سے مراد صرف بڑے لوگ کیوں لیتے ہیں؟ خود جسے ہم تاریخ کہتے ہیں، اسے کسی نے لکھا ہے، کسی کے کہنے پہ لکھا ہے، یا اپنے اندر کی تحریک پر لکھا ہے،اور لکھنے کا کوئی عمل بہ یک وقت ’شامل کرنے اور خارج کرنے‘ یا ’ منتخب کرنے اور چھوڑ دینے‘ سے خالی نہیں ہوتا؛خود میں جو کچھ لکھ رہاہوں، چند باتیں لکھتا ہوں،اور درجنوں باتیں چھوڑ دیتا ہوں۔ میں صرف انھی باتوں کو لکھتا ہوں، جو مجھے اہم محسوس ہوتی ہیں،یا جن کا میں اظہار کرنا مناسب سمجھتا ہوں؛ایک طرح کا جبر، ایک طرح کی سنسرشپ،ایک طرح کے اہم اور غیر اہم ہونے کا امتیاز مسلسل میری رہبری کررہا ہوتا ہے۔ ہوسکتا ہے ،اگر کبھی یہ اوراق شایع ہوئے، اور میں نے انھیں دوبارہ پڑھا تو مجھے ان باتوں کے بجائے کچھ اور باتیں، کچھ اور واقعات زیادہ یاد آئیں،اور میں انھیں زیادہ اہم سمجھوں،اور یہ محسوس کروں کہ یہاں کے قیام کے دوران میں،میرے ذہن و دل پر نقش ہونے والے واقعات تو وہ تھے، جن کا ذکر میں نے نہیں کیا،جو میرے حافظے میں کہیں موجود ہیں۔ میں اپنے حافظے میں موجود یا دفن واقعات کو سامنے لانے کے قابل ہوں گا، مگر جو باتیں انسانی تاریخ میں واقع ہوئیں، مگر انھیں مئورخوں نے نہیں لکھا، انھیں کون سامنے لاسکتا ہے؟ کون متبادل تاریخ لکھ سکتاہے؟مجھے یہ احساس شدت سے ہورہاہے کہ ہم جس دنیا میں موجود ہیں،اسے بنانے بگاڑنے میں صرف بڑے آدمیوں،بڑے واقعات ،بڑے سانحات کا کردار نہیں ہوتا۔بڑے آدمی ہوں ،یا بڑے واقعات ،وہ ایک طرح کا انحراف ہوتے ہیں”-

میرے دوست! ہر ڈائری اس انسان کی شخصیت کا آئینہ ہوتی ہے- اس کے خیالات و نظریات کا عکس ہوتی ہے اور پڑھنے والوں کے لیے مستقل غور فکر کا خوان ہوا کرتی ہے- گو کہ اب قلم اور کاغذ کا اتنا زیادہ رواج نہیں رہا لیکن اس کی جگہ برقی ڈائری تو موجود ہے- سو تم اگر ڈائری لکھ نہیں سکتے تو مختلف ڈائریوں کو پڑھو ضرور، تاکہ ذہنی وسعت اور سوال کرنے کی جرات پیدا ہو اور تمہاری معلومات میں اضافہ ہونے کے ساتھ ساتھ تمہارا علم مزید پروان چڑھ سکے-

 میری ادھوری ڈائری میں الفاظ کے ایک اور مجسمے کا اضافہ ہو چکا ہے- مجھے ان مجسموں میں دوڑتی جذبات کی روح محسوس کرنے دو-

!خدا تمہیں عین حاسد سے بچائے

تمہارا اپنا۔۔۔

عبداللہ

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here