اٹھائیس مارچ دس بج کر تیس منٹ پر ہم لوگوں کی کلاسیکی غزل کی کلاس ختم ہوئی اور ہم لوگ درسی تقریر کو دوہرا رہے تھے کہ اچانک ہم سب کے مشفق و مربی استاذ، ادیب العصر، سحر انگیز اسلوب کے مالک ,صاحب طرز انشاء پرداز ادیب، استاذ الشعراء پروفیسر سید سراج الدین اجملی صاحب (اطال اللہ عمرہ ) نے غم انگیز اور مایوس کن لہجہ میں یہ جاں گداز، جگر خراش اور دلسوز حادثہ فاجعہ کی اطلاع دی کہ ابھی ابھی ہم سب کی معلمہ ڈاکٹر سیما صغیر صاحبہ نے اس دھوپ بھری دنیا کو چھوڑ کر عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب رخت سفر باندھ لیاہے – ان للہ مااخذ ولہ ما اعطی وکل شئ عندہ باجل مسمی فلتصبر ولتحتسب -اناللہ وانا الیہ راجعون-
یقینا اس ناگہانی اور صاعقہ اثر خبر نے روح کو زخم زخم اور دل کو کرچی کرچی کردیا ،خرابات آرزو پر ان کی دائمی مفارقت کاغم اس طرح برسا کہ آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا اور کچھ سجھائی نہیں دے رہا ہے۔ آنکھوں سے جوئے خوں رواں ہے، الفاظ میرے ہونٹوں پر پتھرا گئے ہیں، جسم وجان میں عجیب بے قراری کی لہر دوڑ رہی ہے، شعور و آگہی کی تمام روشنیوں نے ماتم ونوحہ گری کی تاریکی کی زنجیر میں اس قدر جکڑ دیاہے کہ ذہن وفکر اپنی تمام تر وسعتوں کے باوجود سن ہوچکاہے، ہاتھوں پر لرزہ طاری ہے;اور یوں اپنے جذبات کو صفحۂ قرطاس پر منتقل کرنے میں دشواری محسوس کررہا ہوں، لیکن پھربھی تسکین روح وجذبات کے لیے چند غیر مرتب سطریں سپرد قرطاس کیے دیتا ہوں ، باقی پھر کبھی موقع ملا تو بسط وتفصیل سے لکھاجائے گا -انشاءاللہ
ابھی دوماہ قبل کی بات ہے کہ ہم لوگوں کا کلاس شروع ہوا,، ہرایک طالب علم نئے داخلہ اور نئے اساتذۂ کرام کی دید وشنید پر فرحت و انبساط سے لبریز تھا اوراساتذہ کرام بھی نئے شاگردوں کی آمد پر خوش تھے، خوشی خوشی ہم لوگوں کی پہلے دن کلاس میں شرکت ہوئی، پہلے دن جن یگانۂ روزگار اور یکتائے زمن اساتذۂ کرام سے خوشہ چینی کاموقع ملا، ان میں سے ایک ڈاکٹر سیما صغیر صاحبہ بھی تھیں، پہلے ہی دن ہمیں ان کی خوش اخلاقی، نرم خوئی، خوش مزاجی، شیریں زبانی اور فصاحت بیانی کا بخوبی اندازہ ہوگیا -اور ہم لوگوں کو اللہ کی ذات سے اس بات کایقین تھا اور ہے بھی کہ دوسرے سمسٹر سے یونیورسٹی کھل جائے گی اور ہمیں براہ راست اپنے سارے اساتذہ کرام کو دیکھنے اور ان استفادہ کا موقع ملے گا لیکن (ام للانسان ماتمنی ) خدائی اعلان کے مطابق آج میم ہمیں داغ مفارقت دے گئیں اور ان کو دیکھنے اور بلا واسطہ فیض پانے کی تمنا چکناچور ہوگئی اور آرزو دھری کی دھری رہ گئی- اے بسا آرزو کہ خاک شدہ (ہائے افسوس !ایسی کتنی ہی آرزوئیں پوری نہ ہوئیں )
آپ انتہائی سلیس زبان کی مالکہ تھیں، آپ کی گفتگو اور درسی تقریریں تکیہ کلام کی بیہودگی اور آلائشوں سے پاک ہوتی تھی، جب آپ پڑھاتی تھیں تو ایسا لگتا تھا کہ کوئی دریا ہے جو روانی کے ساتھ بہہ رہا ہے۔ میم کے درس میں ہر ایک طالب علم کو اعتراض و اشکال کرنے اور ناسمجھے ہوئے کلام کے بارے میں پوچھنے کی مکمل آزادی تھی -چناں چہ دوران درس اگر کسی طالب علم کے ذہن میں کوئی اشکال یا اعتراض پیدا ہوتا تو بلا جھجھک پوچھ لیتا تھا اور میم بہت اطمینان و سکون سے معترض کے اعتراض کو سنتی اور بسط وتفصیل سے اس طرح وضاحت کرتی تھیں کہ سارے اعتراضات یکلخت رفع دفع ہوجاتے تھے۔ تقریباً دوماہ کے عرصہ میں نہ تو وہ کبھی غصہ ہوئیں اور نہ ہی کسی طالب علم کی زجر وتوبیخ کی ، جس کی وجہ سے ہمیں ایسالگتاتھاکہ شاید میم غصہ اور ڈانٹ ڈپٹ کے لفظ سے نا واقف ہیں –
راقم الحروف نے میم کا نام پہلی بار اس وقت سنا جب تعلیم کاآغاز ہوا اور وہ بھی آن لائن تعلیم، جس میں نہ تو طلبہ اساتذہ سے مکمل طور پر شناسا ہوتے ہیں اور ناہی اساتذہ طلبہ کو اچھی طرح جان پاتے ہیں، لیکن اس کے باوجود ہم پابندی سے کلاس میں شریک ہونے والے طلبہ بہت حد تک اساتذہ کے مزاج سے شناسا ہوچکے ہیں اور اساتذہ بھی کسی قدر ہمیں پہچان چکے ہیں۔ بنا بریں ہم یقین سے کہ سکتے ہیں کہ نرم خوئی میں میم اور ہمارے موجودہ استاذ محترم ڈاکٹر سید سراج الدین اجملی صاحب (اول الذکر کی بال بال مغفرت فرمائے اور ثانی الذکر کاسایہ ہم سبھوں پر تادیر قائم ودائم رکھے )کی مثال فی زمان بہت کم ملتی ہے –
یقینا مرحومہ دنیائے فکر ونظر کی وہ آفتاب تھیں، جس کی روشنی سے تقریبًا تین دہائیوں تک فکروتحقیق سے لے کر ادب وصحافت کی وادیاں اور سیمینار کے اسٹیجز جگمگارہے تھے، ان کا وجود وہ گل سرسبد تھا جس کی خوشبو سے ادبی دنیا معطر تھی، فکر وفن کے دشت میں آپ وہ روشن مشعل تھیں جس کی روشنی میں مسافران ادب منزل تک رسائی حاصل کر رہے تھے۔ مگر آہ! آج یہ آفتاب ہمیشہ کے لیےغروب ہوگیا، ان کے چلے جانے سے جہان ادب کی فضائیں سوگوار ہوگئیں، تدریس علم کی بزم لہو لہو ہے ,میخانہ نثر ماتم کناں ہے اور وقت کی لوح پر رقم کرنے والا ایک عظیم الشان قلم کاسفر یکلخت رک گیاہے-