میرے دوست!
تمہیں خط لکھے ہوئے بہت دن گزر چکے، مگر تمہیں یہ اچھی طرح معلوم ہے کہ میں اچانک لکھنا کیوں چھوڑ دیا کرتا ہوں؟ آج بھی میں کچھ نہیں لکھنا چاہتا تھا مگر اس نصف چاند کی رات کا ساحر خاموشی کی بانسری پہ، تنہائی کا ساز چھیڑ کر دل ویران میں کیفیات کا اک الاؤ روشن کر رہا ہے- یہ ایسا الاؤ ہے جس میں یادوں کی خشک لکڑیاں چٹختی ہیں اور خیال کی چنگاریاں اردگرد بکھر کر لمحے بھر کو چمکتی ہیں اور پھر کہیں تحلیل ہو جاتی ہیں- اس الاؤ کے بھڑکتے شعلوں میں ماضی کی پرچھائیاں مختلف روپ دھار کر دل ویران میں کسی محفل کا سماں طاری کر دیتی ہیں اور بعض اوقات تو پوری محفل ہی اجاڑ کر رکھ دیا کرتی ہیں-
تم جانتے ہو کہ ایسی تمام خواہشات جو تکمیل کی سرحد کو نہ چھو پائیں، وہ سراب بھی ہوتی ہیں اور خواب بھی- ایسی آرزوئیں جو وقت کی تپش سے پگھل جائیں اور انسان کو ایک موڑ پر کشمکش میں مبتلا کر کے اسے آدھے راستے کا مسافر بنا دیں، وہ سراب کہلاتی ہیں خواب نہیں- جبکہ ایسی خواہش جو انسان کے شب و روز کو بے چین و بے قرار کر دے اور اسے محنت کے صحرا میں چلتے رہنے کا حوصلہ دے اسے خواب کا نام دیا جاتا ہے- یہی خواب ایک دن محنت کے صحرا سے تعبیر کا نخلستان ڈھونڈنے میں مدد کرتا ہے اور انسان اس صحرا کی دشواری اور کٹھن مراحل کو بھول جاتا ہے- جس طرح ہر بارش کی بوند سیپ نہیں بن پاتی اسی طرح ہر خواہش خواب کا روپ نہیں دھار سکتی- فقط وہی خواہش خواب بن سکتی ہے جو انسان کو سوتے میں بھی جاگنے کا احساس دلا کر اسے ہر پل تعبیر کے جالے بننے پر اکسانے کی صلاحیت رکھتی ہو- خواہش کیا ہے اس پر پھر کبھی لکھوں گا-
میں تمہیں بتاؤں کہ خواب پلکوں پر سجتے ہیں، آنکھوں میں چمکتے ہیں جبکہ عمل سے پنپتے ہیں- خواب محرومی، تکلیف، اذیت اور بے بسی کی حالت میں سنورتے ہیں اور پھر تعبیر میں راحت، چین، سکون اور خوشی عطا کر جاتے ہیں( ہر خواب نہیں)- لیکن بعض اوقات سراب بھی خواب کا روپ دھار کر آنکھوں میں چبھنے لگتے ہیں- سرابوں کی تعبیر نہیں ہوا کرتی اور جب سراب خواب بن جائیں یا خواب ہی سراب کا روپ دھار لیں تو پھر انسان سوتے میں بھی جاگتا ہے، تڑپتا ہے، محنت کے صحرا میں دوڑتا ہے، مگر مزید بیابان نصیب میں دیکھتا ہے-
خواب سراب کب بنتے ہیں تم نے سوچا ہے کبھی؟ ہر وہ خواب جو تعبیر کی آس میں اک عرصے تک پلکوں کے در پر پڑے پڑے فنا ہو جائے، ہر وہ خواب جو پلکوں سے گر کر پانی کی بوند میں بدل کر بھی بے وقعت رہ جائے اور وہ خواب جو پلکوں سے اتر کر وقت کی بھول بھلیوں میں کھو جائے ۔۔۔۔ یہ سب خواب نہیں سراب کہلانے لگتے ہیں- ان کی تعبیر تو نہیں ہوتی مگر یہ بھٹکا کر اصل سے توجہ ضرور ہٹا دیا کرتے ہیں- خواب ہوں یا سراب، یہ ایک بار آدمی کو پرامید اور پرعزم ضرور بناتے ہیں- کسی نے کیا خوب کہا تھا،
“The traveler walks through many mirages before he finds water”
کیا کہوں اور کیا نہ کہوں۔۔۔ رات کسی پہاڑی چشمے کی مانند بہتی چلی جا رہی ہے، آسمان پر چمکتا نصف چاند اور تنہائی کا ساز کیفیات میں شدت پیدا کرنے لگا ہے- ہم جیسوں کے لیے اس الاؤ میں بے خود ہو کر جھلسنے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں- اس سمے اندھیرے کے دوش پر خاموشی یوں کھلکھلا کر مجھ پہ ہنسنے لگی ہے جیسے کوئی دوشیزہ من چاہے چہرے کو دیکھ کر بے ساختہ مسکرا دیتی ہے-
خدا تمہیں خوابوں کے سراب اور سرابوں کی اذیت سے بچائے
تمہارا اپنا۔۔
عبداللہ