منٹو اپنی قبر سے

Date:

Share post:

میں سعادت حسن منٹو! نام تو سنا ہی ہوگا،

ہاں وہی منٹو جس نے کھول دو، کالی شلوار، بلاؤز ،ٹھنڈا گوشت جیسے افسانے لکھے، وہی منٹو جس نے طوائفوں کو تمہاری نیک صالح خواتین کی صف میں کھڑا کر نے کی جسارت کی، وہی منٹو جس کے افسانے پر تم لعنتیں بھیجتے ہو، جس کے افسانے کی کتاب گھر ہونے پر تمہیں ایسا لگتا ہے کہ واقعی کوئی طوائف بہ نفس نفیس گھر آگئ ہو، جس کی افسانہ کی کتاب کو تم اپنی دیگر کتابوں سے ایسے دور رکھتے ہو جیسے پاک کپڑے ناپاک کپڑوں سے رکھے جاتے ہیں۔

تم یہ سب کرتے ہو میرے افسانے پڑھ کر مجھ پر ایصال ثواب کے طریق لعنتیں بھیجتے ہو، میرے افسانوں کی اپنی دیگر کتابوں سے دور رکھتے ہو، تم ایسا اس لیے کرتے ہو کہ تم عزت دار لوگ ہو،لیکن میرے یہ سمجھ نہیں آتا کہ جب عرفان خان ٹھنڈا گوشت، کالی شلوار، پر ناٹک بناتا ہے تو تم کبھی فرداً فرداً تو کبھی اجتماعی طور غور سے کیسے دیکھ لیتے ہو، تمہیں غصہ کیوں نہیں آتا جب ناٹک میں کسی عورت کی عصمت دری ہوتے دکھایا جاتا ہے، تمہارا خون کیوں نہیں کھولتا؟ جب ناٹک میں کسی معصومہ بے بس لاچار لڑکی کی شلوار کھولتے دکھایا جاتا ہے، یہ وہی افسانوں پر مبنی ناٹک ہیں جو میں نے لکھے،جو سعادت حسن منٹو نے لکھے، جس پر تم لوگوں نے مقدمات چلائے۔ یہ وہی طوائفوں کی زندگی پر مبنی ناٹک ہیں جن کی روح کو تم نفرت اور جسم کو ہوس کی نظر سے دیکھتے ہو۔ یہ انہی طوائفوں کی کہانیاں ہیں جن کے ساتھ ہر مذہب، ہر مسلک، کا آدمی رات گزارنا تو چاہتا ہے لیکن کوئی ان کو اپنے گھر کی عزت بنانے کے لئے تیار نہیں ہوتا۔ جبکہ طوائف قدرت کی بدنما تخلیق نہیں بلکہ سماج کی بدنما تصویر ہے۔

میں نے تو صرف تمہیں تمہارے سماج کا وہ چہرہ دکھانے کوشش کی ہے جس کو تم ازل سے نظرانداز کرتے آئے ہو۔

تم نے نہ صرف یہ کہ عورت کو برہنہ کیا بلکہ ہر قدم پر اس کی عزت کو تار تار بھی کیا، خدا نے کبھی بھی انسانی تقسیمی کا درس نہیں دیا، لیکن تم نے عورت کو مختلف اقسام میں تقسیم کردیا، کہیں نیک و صالح، تو کہیں بدکردار طوائف کی شکل میں۔

یہ تم لوگوں کو دنیا میں جتنے عزت دار جسم نظر آتے ہیں ان کی روحیں اتنی ہی داغ دار ہیں جتنا ایک طوائف کا جسم، تم نے میرے صرف کالی شلوار، ٹھنڈا گوشت کھول دو، بلاؤز جیسے ہی افسانے پڑھے ہیں۔ کیا انقلاب پسند تمہاری نظر سے نہیں گزرا؟ کبھی کالی شلوار، ٹھنڈا گوشت، کھول دو ،بلاؤز سے نظر ہٹے تو ایک نظرکرم اس جانب بھی کیجیئے گا، اور سلیم کے کرب کو محسوس کرنے کی کوشش کیجیے گا، دیکھیے وہ کیا کہتا ہے، انقلاب پسند میں:

” انسانیت ایک دل ہے. ہر شخص کے پہلو میں ایک ہی طرح کا دل موجود ہے. اگر تمہارے بوٹ غریب مزدور کے ننگے سینوں پر ٹھوکریں لگاتے ہیں، اگر تم اپنے شہوانی جذبات کی بھڑکتی ہوئ آگ کسی ہمسایہ نادار لڑکی کی عصمت دری سے ٹھنڈی کرتے ہو، اگر تمہاری غفلت سے ہزار یتیم بچے گہرارہ جہالت میں پل کر جیلوں کو آباد کرتے ہیں، اگر تمہارا دل کاجل کی مانند سیاہ ہے، تو یہ تمہارا قصور نہیں، ایوان معاشرت ہی کچھ ایسے ڈھب سے استوار کیا گیا ہے کہ اس کی ہر چھت ہمسایہ چھت کو دابے ہوئے ہے”۔

میں نے اپنے افسانوں کے متعلق کبھی غور نہیں کیا، اگر ان میں کچھ چیز بقول تمہارے جلوہ گر ہے تو میرابے کل باطن ہے، میرا ایمان نہ تشدد ہے نہ عدم تشدد، انسان کا علم محدود ہے اور میرا محدود کے ساتھ منتشر بھی ہے۔

میں نے وہی لکھا جو دیکھا، محسوس کیا۔ کبھی مربوط صورت میں تو کبھی غیر مربوط شکل میں اور اس لیے تم نے میرے افسانوں سے کیا میری صورت تک سے نفرت کی، اصل میں تم نے نہ میری شکل نہ میرے افسانوں کی صورت سے نفرت کی بلکہ سماج کا حقیقی چہرہ دیکھنے سے نفرت کی۔

تم نے اپنے بنائے دستورکا چہرہ دیکھنے سے نفرت کی، لیکن یاد رہے مور کے پیر کتنے بھی بدنما ہوں وہ اس کو کتنی ہی بری نظر سے دیکھتا ہو یا اپنے جسم کا ایک بدنما داغ تسلیم کرتا ہوں، لیکن وہ اس کا انکار نہیں کر سکتا کہ وہ اسی کے جسم کا نہ صرف حصہ ہیں بلکہ اس کے جسم کا ڈھانچہ ہی اس کے انہی بدنما پیروں پر قائم ہے جس کو شاید مور بری نظر سے دیکھتا ہے۔ ٹھیک اسی طرح یہ طوائف خانے تمہارے سماج کا وہ قوی ستون ہیں کہ اگر ان کو ڈھادیا جائے تو تم اپنی گھر کی عزت کو ہی اپنی ہوس کا شکار بنانے میں کوئی غفلت نہیں کروگے، اپنے اپنے تجربات کی بات تم نے انسان کو زاہد، صابر، متقی کی شکل میں دیکھا ہے لیکن میں نے انسان کو درندوں کی شکل میں بھی بارہا دیکھا ہے، کیونکہ میں بارہا ان گلی کوچوں میں گیا ہوں جہاں تم جانا پسند نہیں کرتے۔

تم بھلے ان گلی کوچوں میں جانا پسند نہ کرو جہاں تمہارے بزرگ اپنی عیاشیوں کی نشانیاں چھوڑآییں، لیکن یقین جانو تمہارے بزرگوں کی عیاشیوں کے نشان نہ صرف ان بدنام گلی کوچوں میں بلکہ ان درودیوار میں بھی موجود ہیں جہاں عرصہ سے تہذیب و تمدن کا کا درس دیا جاتا رہا ہے۔ میں نے اپنے افسانے( ایک خط) میں اس پر وضاحت سے گفتگو کی ہے، کبھی کالی شلوار، بلاؤز، ٹھنڈا گوشت ،کھول دو ،سے فرصت ملے تو اس کو بھی دیکھ لینا۔

میں نے زندگی بھر تم لوگوں سے کوئی فرمائش و التجا نہیں کی لیکن آج کرتا ہوں۔ وہ یہ کہ ١٨جنوری میری وفات کے دن خدارا کوئی سمینار منعقد نہیں کرنا، کوئی افسانوی و شعری نشست میرے اعجاز میں نہیں کرانا، بلکہ ان پیسوں سے کسی لڑکی کا بدن ڈھانپ دینا کیوں کہ ہوس کا ننگا ناچ اب بھی جاری ہوگا میں جانتا ہوں، کیونکہ میں نے انسان کو جسے اشرف کہا گیا ہے بارہا درندہ بنتے دیکھا ہے۔

تم لوگ سوچتے ہوگے کہ میں کس حال میں ہوں؟ تو بتاتا چلوں کہ میں یہاں بہت عمدہ اور اچھے حال میں ہوں کیونکہ یہاں کوئی تقسیم نہیں۔ یہاں عورت ذات کی اور نہ کسی مرد کی عصمت تار تار ہوتی ہے۔ یہاں صرف فیصلہ ہوتا ہے سزا وجزا کا اور میں اپنی باری کا منتظر ہوں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

متعلقہ مضامین

*اے علی گڑھ ، روح سید ، علم و فن کے گلستاں

مغلیہ حکومت کی شام زوال کو طلوع سحر میں تبدیل کرنے والی دو عظیم شخصیت ، غالب و...

نثری نظم “لفظ محبت”

کیا واقعی لفظِ محبت کوئی وجود رکھتا ہے؟ یا یہ محض، ایک جھوٹا افسانہ ہے؟ ہزاروں دفعہ بےانتہا محبت کا وعدہ پر...

نثری نظم

کسی بیمار سے خدمت کی توقع ہی کیا کی جائے جنہیں چھوڑ کر جانا ہی راس آتا ہو ان...

مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے نظامِ ہاسٹل میں سدھار کی ضرورت

           علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ہندوستان کی مرکزی اور مشہور ومعروف ان یونیورسٹیوں میں...