دل مرا محوِ انتظار رہے

دل مرا محوِ انتظار رہے
یعنی ہر دم ہی بیقرار رہے

آپ کا کوئی اعتبار نہیں
چاہتے تھے کہ اعتبار رہے

عشقِ خودار کا تقاضا ہے
دم بدم حسن شرمسار رہے

عشق میں جان کا بھروسہ کیا
اس سے کہنا کہ ہوشیار رہے

تیرا چہرہ ہی جب نظر میں نہیں
دامنِ دید تار تار رہے

وہ زمانہ گیا کہ کہتے تھے
اور کچھ دن ذرا بہار رہے

آ بھی جاؤ کہ منتظر ہوں میں
غیر ممکن کہ یہ بہار رہے

راہ دیکھوں تری بھلا کب تک
کب تلک آنکھ زیر بار رہے

وہ ابھی لوٹتا ہے لوٹے گا
زندگی بھر یہی خمار رہے

عالی تجھ کو نہ بھول پائے کوئی
تا قیامت ترا وقار رہے

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here