دل مرا محوِ انتظار رہے
یعنی ہر دم ہی بیقرار رہےآپ کا کوئی اعتبار نہیں
چاہتے تھے کہ اعتبار رہےعشقِ خودار کا تقاضا ہے
دم بدم حسن شرمسار رہےعشق میں جان کا بھروسہ کیا
اس سے کہنا کہ ہوشیار رہےتیرا چہرہ ہی جب نظر میں نہیں
دامنِ دید تار تار رہےوہ زمانہ گیا کہ کہتے تھے
اور کچھ دن ذرا بہار رہےآ بھی جاؤ کہ منتظر ہوں میں
غیر ممکن کہ یہ بہار رہےراہ دیکھوں تری بھلا کب تک
کب تلک آنکھ زیر بار رہےوہ ابھی لوٹتا ہے لوٹے گا
زندگی بھر یہی خمار رہےعالی تجھ کو نہ بھول پائے کوئی
تا قیامت ترا وقار رہے