دل کو یہ احسان اٹھانا پڑتا ہے
آنکھوں سے احوال سنانا پڑتا ہےراتیں خیر گزر جاتی ہیں خلوت میں
دن میں تو کردار نبھانا پڑتا ہےلحظہ لحظہ خواب میسر آتے ہیں
رفتہ رفتہ ہوش گنوانا پڑتا ہےچپکے چپکے اپنے اندر جاتے ہیں
سہمے سہمے باہر آنا پڑتا ہےبستی بستی ویرانی ہے صدیوں کی
صحرا سے یہ راز چھپانا پڑتا ہےخاموشی ہی خاموشی ہو پہلو میں
تب دنیا میں شور مچانا پڑتا ہے