ڈیپ فیکس کی خطرناکی

Image Source: The Guardian

یہ یقینی بات ہے کہ غلط اطلاع اور دھوکہ بازی سے انسان کو نقصان پہنچتا ہے، لیکن اب یہ صرف نقصان ہی کا باعث نہیں ہے بلکہ باضابطہ جنگ و جدال کاخطرناک روپ دھار چکا ہے، جس سے سماج میں اختلاف و انتشار کا ماحول  پیدا ہوتاہے اور بسا اوقات انتخابی نتائج بھی متاثر ہوتے ہیں۔ شہرت کی چاہت رکھنے والے افراد،نظریاتی گروہ، انتہا پسند متشددین اور مال و زر کی آرزو رکھنے والےجعلی افراد سوشل میڈیا کی چیزوں کو بآسانی ساز بازی سے بدل دیتے ہیں  اور یہ عمل کسی مخصوص طریقہ کے ذریعہ ہی ممکن ہوتا ہے، جس میں ان کی غیر معمولی پہنچ کا عمل دخل پایا جاتا ہے۔ اس دھمکی آمیز غلط اطلاع کے پیچھے  باریک جعل سازی (Deepfakes)کی شکل میں ایک آلہ کارفرما ہوتا ہے۔

ڈیپ فیکس کیا ہے؟

یہ ایک ایسا ڈیجیٹل میڈیا ہے جس میں  مصنوعی ذہانت (Artificial Intelligence) کے ذریعہ ویڈیو، آڈیو اور فوٹوز میں چھیڑ چھاڑ کرکے انھیں تبدیل کیا جاتا ہے۔ یہ ایک طرح کی ڈیجیٹل جعل سازی ہے۔ دراصل ڈیپ فیکس کا استعمال کسی شخص یا ادارے کو نقصان پہنچانے کے لیے کیا جاتا ہے۔ کمپیوٹرکے وسائل تک عام رسائی، الگوریتھم کا عمومی استعمال، نیٹ کی بآسانی فراہمی اور میڈیا کےبے پناہ استعمال نے اس میں  ساز بازی کا ایک طوفان برپا کر دیا ہے۔ اس مصنوعی میڈیا کےمواد کو ڈیپ فیکس کہا جاتا ہے۔

آرٹیفیشیل انٹیلیجنس مصنوعی میڈیا یا ڈیپ فیکس تیار کرتا ہے، جن کا استعمال خاص خاص میدانوں میں ہوتا ہے، مثلا: تعلیم، فلم سازی، مجرمانہ گواہی اورفنکارانہ اظہار وغیرہ میں۔تاہم، جیسے جیسے مصنوعی میڈیا ٹیکنالوجی تک رسائی بڑھتی ہے، اسی طرح استحصال کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔اس کا استعمال کردار کو بدنما کرنے، جعلی ثبوت تیار کرنے،عام لوگوں کو دھوکہ دینے اور جمہوری اداروں پر سے اعتماد کو کمزور کرنے کے لیے بھی کیا جاتاہے۔ یہ سب کچھ بڑی تیزی سے کم وسائل میں انجام دینا ممکن ہے۔

نشانے پر کون لوگ ہیں؟

ڈیپ فیکس کے غلط استعمال کا پہلا کیس فحش فلموں (Pornography) میں دیکھنے کو ملا۔ “Sensity.ai” کی رپورٹ کے مطابق 96 فیصد ڈیپ فیکس فحش مواد ہیں اور صرف فحش ویب سائیٹ پر 135 ملین  سے زائد لوگوں نے اسے دیکھا ہے۔ ڈیپ فیکس والی فحش فلموں میں زیادہ تر عورتوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے اور اس کے ذریعہ سے لوگوں کوڈرا یا، دھمکایا اور انھیں نفسیاتی طور پر نقصان پہنچا یا جاتا ہے۔ یہ خواتین کو جنسی استحصال کے لیے مجبورکرتا ہے جو کہ نفسیاتی تناؤکا سبب بنتا ہے اور بعض صورتوں میں مالی نقصان اور ملازمت کھونے جیسےنتائج بھی بھگتنے پڑتے ہیں۔ ڈیپ فیکس کے ذریعہ کسی شخص کو غیر سماجی رویوں میں ملوث ہونے اور ایسی گھٹیا باتیں کہتے ہوئے دکھایا جاسکتاہے، جو اس نے کبھی انجام ہی نہیں دیا، یہاں تک کہ اگر وہ شخص وضاحت دے کریا  کسی دوسرے ذرائع سے جعل سازی کو ختم کردے، تب بھی یہ درستگی نقصان کا مداوا کرنے میں معاون نہیں ہوسکتی ہے۔

ڈیپ فیکس قلیل مدتی اور طویل مدتی نقصان کا باعث بھی بن سکتا ہے اور روایتی میڈیا پر پہلے سے گرتے ہوئے اعتماد میں اضافہ کرسکتا ہے۔ شرپسند ریاست عوامی تحفظ کو نقصان پہنچانے اور کسی ملک میں غیر یقینی صورتحال اور افراتفری کا ماحول پیدا کرنے کے لیے اسےایک طاقتور ٹول کے طور پر کام میں لا سکتی ہے اور اس کے ذریعہ سے ادارے اور سفارت کاری پر اعتماد کوبھی  کمزور کیا جاسکتا ہے۔

عام طور پر باغی گروہ اور دہشت گرد تنظیمیں ڈیپ فیکس کا استعمال کرتی ہیں، تاکہ وہ اپنے مخالفین کو اشتعال انگیز تقریریں سنوائیں اور ان کے جذبات کو بھڑکانے کے لیے انھیں اشتعال انگیز کارروائیاں دکھا سکیں۔

ڈیپ فیکس سے متعلق ایک دلچسپ بات یہ ہےکہ وہ جھوٹ کا پلندہ ہے۔  سچائی کو ڈیپ فیکس یا جعلی خبر کہہ کر مسترد کر دیا جاتا ہے۔ ڈیپ فیکس کا محض وجود ہی اسے اعتبار کے قابل بنا دیتا ہے۔ سیاسی لیڈران بھی ڈیپ فیکس کو بآسانی ہتھیار بنا سکتے ہیں اور  اس کے ذریعہ سےمیڈیا کی خبروں اور سچائی کو مسترد کرنے کے لیے جعلی خبروں اور متبادل حقائق پیش کر سکتے ہیں۔

اس کا حل کیا ہے؟

               میڈیائی مواد کی شناخت کے لیے عوام میں گہرے شعور کو عام کرنا چاہیے۔ اس لیے کہ “سوشل میڈیا صارفین” کے لیےغلط معلومات اور ڈیپ فیکس کا مقابلہ کرنے کا سب سے مؤثر ذریعہ میڈیا سے گہری واقفیت ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ٹیکنالوجی کی صنعت، معاشرہ کے افراد اور پالیسی سازوں کے ساتھ باہم گفتگوکریں اور انھیں اس کے متعلق اہم ہدایات دیں،  تاکہ نقصان دہ ڈیپ فیکس کی تخلیق اور تقسیم کو روکنے کے لیے قانونی حل تیار کیا جاسکے۔

اس وقت تمام سوشل میڈیا پلیٹ فارم ڈیپ فیکس کے مسئلے پر نوٹس لے رہے ہیں اور تقریباً سبھی کے پاس ڈیپ فیکس کے لیے پالیسیاں اورشرائط ہیں۔ ہمیں ڈیپ فیکس کا پتہ لگانے، میڈیا کی توثیق کرنے اور مستند ذرائع کو وسعت دینے کے لیے ایسی ٹیکنالوجی کے حل کی بھی ضرورت ہے، جس کا استعمال آسان ہو۔

انٹرنیٹ پر ڈیپ فیکس جیسی آفت کا مقابلہ کرنے کے لیےہم سب کو میڈیا کا ہوش مند صارف بننے کی ذمہ داری قبول کرنی ہوگی۔ سوشل میڈیا پر کچھ بھی شیئر کرنے سے پہلے سوچیں اور توقف کریں اور اس  بیماری کے حل کا حصہ بنیں۔

 

مضمون نگار (آشیش جائمن)
انگریزی اخبار “دی ہندو” سے ماخوذ

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here