دم رخصت فراہم ہجر کا سامان کرتے ہیں
دل حیرت زدہ کو اور بھی حیران کرتے ہیںاٹھائیں کس قدر احساں کرم فرمائیوں کا ہم
زمانے بھر میں کہتے ہیں کہ وہ احسان کرتے ہیںنظر انداز کرنے کا گلہ ان سے نہیں لیکن
ہمیں بھی دیکھنا ہے وہ کسے مہمان کرتے ہیںڈراتے کیا ہو نادانو انہیں اونچی عمارت سے
چٹانوں کا جو سینہ چیر کر میدان کرتے ہیںوفا کی جستجو میں ہم کسی ویران رستے پر
متاع زندگی کا کس قدر نقصان کرتے ہیںدرون ذات کی پیچیدگی کچھ کم نہیں احمر
زمانے کے لیے ہم شاعری آسان کرتے ہیں