شام کی سرخی ابھی اندھیرے میں نہیں بدلی تھی، درختوں پہ دن بھر تھک کے لوٹ آتے پرندوں کا شور تھا- کہتے ہیں شور آلودگی ہوتا ہے، مگر پرندوں کا یہ شور آلودگی نہیں تھا، یہ ان کے لوٹ آنے کی خوشی اور اپنے گھونسلوں کی راحت کا اظہار تھا، مگر شہر کی بے ہنگم ٹریفک اور انسان کے بےمقصد لفظوں کے شور میں، ان کی خوشی اور راحت نظرانداز ہو چکی تھی- درختوں سے لپٹے برقی قمقمے کسی آکاس بیل کی مانند انھیں جکڑ کر ان کی خوبصورتی میں کم از کم اضافہ تو نہیں کر رہے تھے- سڑک کنارے سرشام مختلف چھابڑی والوں نے ڈیرہ لگا لیا تھا اور ہر ایک اپنے مخصوص انداز میں راہ گیروں کو اپنی جانب متوجہ کرنا چاہتا تھا- ان سب کے بیچ وہ دھیرے دھیرے چلتا ہوا ایک کیفے میں داخل ہوا تو وہاں بیٹھنے کے لیے ایک ہی کرسی کے علاوہ کوئی اور جگہ میسر نہ تھی- وہ خاموشی سے اسی کرسی پر آن بیٹھا- اس نے ارگرد ایک سرسری سی نگاہ دوڑائی تو اسے مختلف عمر کے لوگ دنیا و مافیہا سے بے خبر، اپنی اپنی کیفیات میں مدہوش نظر آ رہے تھے- اس کے بالکل سامنے دو لڑکیاں اور دو لڑکے بیٹھے ایک دوسرے کے کانوں میں رازونیاز کی باتیں کرنے میں محو تھے- باتیں کرتے کرتے اچانک ان میں سے ایک لڑکا اپنے پاس بیٹھی لڑکی کو بانہوں میں لے کر اس کے بھورے بالوں میں، جو اس کی گردن کے ارگرد بے باکی سے بکھرے ہوئے تھے، پناہ لینے کی کوشش کرنے لگتا- اس نے دوسری جانب نظر دوڑائی تو ایک لڑکی میز پہ سر رکھے یوں سوئی ہوئی تھی جیسے صدیوں کا سفر طے کر کے آئی ہو، اس کے سامنے بیٹھا ایک نوجوان اس کے ہاتھوں کی انگلیوں سے مسلسل کھیلنے کی کوشش کر رہا تھا- یہ منظر نیا نہیں تھا، وہ اکثر ایسی جگہوں پر آتا جاتا رہتا تھا، اس کے آنے کا مقصد کبھی کوئی کھوج ہوتا، ایسی کھوج جس کے پیچھے اس کے سوالات کے معنی ہوں- یا پھر وہ اپنے ناول کا کوئی حصہ لکھنے کے لیے کسی منظر کی تلاش میں یہاں وہاں گھومتا رہتا تھا-
شام گہری ہو چکی تھی، اس نے بے ساختہ آسمان کو دیکھا جہاں اب سوائے چھاتے اندھیرے اور دور ایک ٹمٹماٹے ستارے کے علاوہ اسے کچھ نظر نہ آیا- اچانک اس کی نظر چھت پر پڑی جہاں مختلف لوگ بیٹھے ہوئے تھے- ان سب کے چہرے واضح تھے مگر ایک کونے میں بیٹھی ہوئی ایک لڑکی کی فقط کلائی ہی دکھائی دے رہی تھی- اس نے غور کیا تو اس کی کلائی میں ایک سرخ چوڑی موجود تھی- اس سرخ رنگ کی چوڑی نے، جو پوری کلائی میں فقط ایک ہی تھی، لیکن کلائی کے خالی پن کو خوبصورتی سے مکمل کر رہی تھی، اسے اپنے حصار میں لے لیا- وہ ایک عام سی چوڑی تھی، جو فیروزہ آباد کے کسی کاریگر کا شاہکار نہیں تھی، اور نہ ہی کسی ممتاز محل کی کلائی میں شاہ جہان کے ہاتھوں پہنائی گئی نازک چوڑی تھی؛ وہ کسی منت کی چوڑی تھی یا کسی کی یاد تھی یا پھر کوئی تحفہ، یہ وہ نہیں جان سکتا تھا، مگر اس چوڑی میں قوت گویائی تھی جیسے؛ چوڑی ایک ہی تھی مگر اسے محسوس ہوا جیسے اس کی مدھم چھنچھناہٹ بہت ہی لو فریکوئنسی میں دلکش آواز پیدا کر رہی ہو، جسے ہر کوئی سننے سے قاصر تھا- اسے یہ چھنچھناہٹ، ہر اس آواز سے خوبصورت محسوس ہونے لگی جنہیں وہ آج تک سن چکا تھا- اسے وہ ساز بھی بھولنے لگے تھے جن کو وہ دلکش کہہ کر بار بار سنا کرتا تھا، اسے ہر اس شاعری کا ترنم بھی ہیچ لگنے لگا جسے وہ اٹھتے بیٹھتے گنگنایا کرتا تھا- چوڑی کی یہ چھنچھناہٹ، ایک پل کے لیے اسے کسی ققنس کا راگ محسوس ہوا، جو دھیرے دھیرے اس کے جذبات کی چٹختی لکڑیوں کو جلانے لگا تھا-
کہتے ہیں ہر شے کی ایک فریکوئینسی ہوتی ہے، اور کبھی کبھی دو انجان چیزوں کی فریکوئینسی اچانک آپس میں ہم آہنگ ہو جائے تو ربط بن جاتا ہے، اور پھر ان سنی گفتگو کا آغاز ہوتا ہے- ایسی گفتگو جو لفظوں کی محتاج نہیں ہے، یہ ایک جاندار کی کسی بے جان سے بھی ہو سکتی ہے، جیسا کہ وہ اس روز پورے ہوش و حواس میں تھا، مگر اس کا ربط سرخ چوڑی سے بن چکا تھا- اس نے اپنی جگہ سے ذرا سرک کر مزید اس لڑکی کو دیکھنے کی کوشش کی، لیکن وہ اس زاویے سے بیٹھی تھی کہ اسے دیکھنا محال تھا- چند لمحے وہ اسے دیکھتا رہا، اور پھر جیسے ہی اس پر سے نظریں ہٹانے کا سوچا، اچانک اسے وہ چہرہ دیکھائی دیا جس نے یہ واحد پراسرار چوڑی پہنی ہوئی تھی- چہرہ کیا تھا۔۔۔ پہلی نظر میں ایک عام سا چہرہ، سادہ نین نقش، سنہرا گندمی رنگ جس پر سیاہ زلفوں نے بسیرا کر رکھا تھا- وہ کسی سے محو گفتگو تھی- اس طرح کے عمومی چہرے اس نے بہت دیکھے تھے، جن پر بظاہر کسی قسم کے جذبات عیاں نہیں ہوتے اور لوگوں کے لیے وہ بہت عام اور ناقابل توجہ ہوتے ہیں، مگر یہاں صورت حال مختلف تھی- اس چہرے پر جذبات کی روانی تھی، مگر وہ شخص شاید جذبات کو پوشیدہ رکھنے میں ماہر تھا یا پھر ہجوم میں رہ کر کسی قسم کی انفرادیت کا قائل نہیں تھا- یہ بھی ممکن تھا کہ وہ جان بوجھ کر کسی بھیڑ کا حصہ بننا چاہتا ہو تاکہ لوگ اس کے چہرے کو کبھی پڑھ ہی نہ پائیں- چوڑی نے جو ربط قائم کیا تھا وہ دھیرے دھیرے مزید گہرا ہوتا چلا جا رہا تھا اور پھر اچانک اس کی نظر اس لڑکی کی آنکھوں پر جا کر ٹھہر گئی۔۔۔۔۔۔۔۔آنکھیں مکمل سیاہ نہیں لگ رہی تھیں، مگر ان آنکھوں کے سامنے بحیرہ الکاہل کی گہرائی، بحیرہ روم کی خوبصورتی، بحیرہ اوقیانوس کا طلاطم اور دریائے نیل کی بے چینی سب سر بسجود تھے- ابھی وہ یہ سب دیکھ ہی رہا تھا کہ اس لڑکی نے اس پر نگاہ ڈالی، خوبصورتی کی بات الگ، مگر ان آنکھوں میں چھپے کئی راز یوں اس پر آشکار ہوئے جیسے کوئی قدیم خزانہ صدیوں بعد کسی سرپھرے مہم جو کے ہاتھ آئے- ان آنکھوں میں ایسے راز چھپے تھے اور اداسی کا ایسا پہاڑی چشمہ رواں دواں تھا کہ جس کے بہاؤ کے سامنے کسی بھی ضد اور انا کی ناؤ کا ٹھہرنا ناممکن تھا- وہ اس صدی کی ہی تھی، مگر ذرا مختلف۔۔۔
بہت ہی عجیب یہ چوڑی تھی، جو اسے دھیرے دھیرے کسی پزل کی طرح گھما رہی تھی- وہ جانتا تھا کہ چوڑی فقط نسوانیت اور کسی ثقافتی علامت کی نشانی نہیں تھی- یہ چوڑی تو اپنے دائرانہ شباہت کی بنیاد پر اسے زندگی،ابدیت اور تسلسل کا احساس دلاتی تھی- جیسے چوڑی کے آغاز اور اختتام کو پہچانا نہیں جا سکتا، اسی طرح وہ بھی اپنی ان سوچوں کو نہ تو روک پا رہا تھا نہ بدلنے پر قادر تھا- وہ بے ساختہ اٹھا، اور دیکھتے ہی دیکھتے وہاں بیٹھی لڑکی تک پہنچ گیا، اس نے بغیر کچھ کہے لڑکی کی کلائی میں چھنچھناتی چوڑی کو چھوا، اسے پکڑ کر بند آنکھوں سے اس کی بناوٹ کو محسوس کرنے ہی لگا تھا کہ لڑکی نے اپنی کلائی پیچھے کھینچی اور اچانک اس کے ہاتھوں پر تکلیف دہ چبھن ہوئی، اس نے آنکھیں کھولیں تو وہ کمرے میں اپنی کرسی پر بیٹھا ہوا تھا، اور وہی سرخ چوڑی ٹوٹ کر اس کی ہتھیلی میں چبھ چکی تھی، جسے وہ گذشتہ روز ایک کیفے سے اٹھا کر لایا تھا۔