چلو اٹھو درِ پیرِ مُغاں سے
کہ کچھ حاصل نہیں اس آستاں سےاترتے ہیں سبھی رنج آسماں سے
سکوں پاؤں بھلا پاؤں کہاں سےبھلا کیوں لوگ جاتے ہیں یہاں سے
یہی شکوہ رہا ہے آسماں سےبہت رشتے ہیں وابستہ یہاں سے
نہیں جانا مجھے دور اس جہاں سےنہ کھانا چوٹ تم زلفِ بتاں سے
مشابہ ہے بہت نوکِ سناں سےغزل گو، مرثیہ گو، شعر خواں سے
مرا قصہ سنو میری زباں سےگزر کر فتنۂ سوزِ نہاں سے
چلا آیا میں تیری داستاں سےہوا ہوں مرتکب یاروں وفا کا
سو اب جانا پڑے گا داستاں سےدلاؤ تم یقیں زندہ ہوں میں بھی
مگر پھر یہ بھی بتلاؤ کہاں سےغم و اندوہ سے خالی ہو جو دل
بھلا لاؤں تو میں لاؤں کہاں سےمرا تجھ سے وہی رشتہ رہا ہے
مکینوں کا جو رشتہ ہے مکاں سےبنامِ عشق کر بیٹھا ہے عالی
ملا ہے فیض جو اردو زباں سے