چار سو خوش شناس بیٹھے ہیں
اور ہم ، محوِ یاس بیٹھے ہیںدل نے سیکھے ترے چلن پیارے
کر کے سب کو اداس بیٹھے ہیںیہ بھی لگتا ہے جا چکے ہیں وہ
یہ بھی لگتا ہے پاس بیٹھے ہیںمر نہ جائیں کہیں خوشی کے سبب
جو ترے آس پاس بیٹھے ہیںآئے تھے بزم میں برائے دید
کھو کے ہوش و حواس بیٹھے ہیںتیرے انکار کی خبر سن کر
عقل و دانش اداس بیٹھے ہیںبعد تیرے چمن ، چمن نہ رہا
بلبل و گل اداس بیٹھے ہیںسوچنا کیا ہمارے ہوتے ہوئے
مسکراؤ کہ پاس بیٹھے ہیںشرم کیجو کہ تیرے پہلو میں
عالی صاحب اداس بیٹھے ہیں