چار سو خوش شناس بیٹھے ہیں

چار سو خوش شناس بیٹھے ہیں
اور ہم ، محوِ یاس بیٹھے ہیں

دل نے سیکھے ترے چلن پیارے
کر کے سب کو اداس بیٹھے ہیں

یہ بھی لگتا ہے جا چکے ہیں وہ
یہ بھی لگتا ہے پاس بیٹھے ہیں

مر نہ جائیں کہیں خوشی کے سبب
جو ترے آس پاس بیٹھے ہیں

آئے تھے بزم میں برائے دید
کھو کے ہوش و حواس بیٹھے ہیں

تیرے انکار کی خبر سن کر
عقل و دانش اداس بیٹھے ہیں

بعد تیرے چمن ، چمن نہ رہا
بلبل و گل اداس بیٹھے ہیں

سوچنا کیا ہمارے ہوتے ہوئے
مسکراؤ کہ پاس بیٹھے ہیں

شرم کیجو کہ تیرے پہلو میں
عالی صاحب اداس بیٹھے ہیں

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here