بنت حوا کل بھی آزاد تھی اور آج بھی آزاد ہے

Image Source: AL-monitor

مذہب اسلام دنیا کا واحد ایسا مذہب ہے جس نے زندگی کے ہر شعبے میں مرد و عورت کو شرعی حدود کا پاس ولحاظ رکھتے ہوئے آزادانہ زندگی گزارنے کا حق دیا ہے۔

* آزادی کیا ہے*؟
آزادی نام ہے انسان کا اپنی ذات میں با اختیار و با اقتدار ہونا، اسلام نے اگر مرد کو اس کی مرضی سے باہر نکلنے کی آزادانہ اجازت دی ہے تو عورت کو بھی صرف یہ کہہ کر کہ” حیا اس کا زیور ہے” گھر کی چہار دیواری میں قید نہیں کیا ہے۔اگر مرد باہر نکل کر عصری علوم سے آراستہ ہو کر اعلیٰ منصب پر فائر ہوسکتا ہے تو عورت بھی شرعی حدود میں رہ کر اور پردہ کا پاس و لحاظ رکھتے ہوئے عصری علوم کے حصول میں ایک اعلیٰ مثال قائم کر سکتی ہے۔
اگر ہم چودہ سو سال قبل کی تاریخ کے سنہرے اوراق کو پلٹ کر دور نبوی کا گہرائی سے مطالعہ کریں تو اندازہ ہوگا کہ آج ہم آزادی کے نام پر جن چیزوں کا مطالعہ کر رہے ہیں وہ قرون اولی کے مقدس نفوس میں اسلامی شریعت کا لحاظ رکھتے ہوئے بھی موجود تھیں۔ہمیں دور نبوی میں صرف صحابہ کرام کی اعلی اور نمایاں مثالیں نہیں ملتیں بلکہ اسلامی دنیا کے اس دور میں بھی عورتیں پردے کا خیال رکھتے ہوئے ہر میدان میں سرگرم تھیں ۔
آپ اندازہ لگائیں کہ تیسری صدی ہجری اور نویں صدی ہجری کے درمیانی عرصہ میں صرف ایک تذکرے میں ٣٧ نمایاں محدثات کا تذکرہ ملتا ہے اور عام مسلمان کسی عائشہ نامی ایک ہی محدثہ سے واقف ہیں۔ لیکن ٣ ہجری سے ٩ ہجری تک ۵۵ ایسی محدثات کا تذکرہ ملتا ہے جو عائشہ نام رکھتی ہیں۔ اسی طرح صرف زینب نام کی ٤٠ محدثات کا ذکر ملتا ہے.
اب اگر ہم دوسرے فنون جیسے لغت، عروض، ریاضی،کتابت، تاریخ، طب وغیرہ کی جانب آئیں تو ان علوم میں بھی بنت حوا اسی سرگرمی سے مرد کے ساتھ شریک کار ہے جو سرگرمی اس نے حدیث وفقہ کے حصول اور اس کے فروغ میں دکھائی ہے۔
حدیث وفقہ اور تفسیر میں خواتین اسلام نے جو خدمات انجام دیں ان پر اگر گفتگو کی جائے تو ہمیں کئی کتابوں کے مطالعہ کی ضرورت پڑے گی۔
حقیقت یہ ہے کہ جب ہم خواتین کے ایک بڑے گروہ کو ان علوم میں منہمک دیکھتے ہیں تو ایک طرف ہماری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جاتی ہیں اور دوسری طرف ہمیں یہ ملال ہوتا ہے کہ جو خواتیں اپنی ایسی روشن تاریخ رکھتی ہوں وہ نہ صرف خود اپنی تاریخ سے بے گانہ ہیں بلکہ الٹا دوسروں کے غلط پروپیگنڈوں سے متأثر ہو کر اپنے تابناک ماضی کو تاریک خیال کرکے آزادی کا سوال کرتی ہیں۔
طبقہ نسواں عبارت ہے خدا کی خلاقیت کے ایک مظہر سے، نظام عالم کو برقرار رکھنے سے، کارگاہ عالم کو ماں کی محبت اور شرم کی چادر سے مزین کرنے سے۔ انسانوں کا یہ طبقہ عورت کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اسلام نے عورت کو ہر اچھے میدان میں آگے رہنے کی اور ہر فن سیکھنے کی اجازت دی ہے بس وہ مخلوط ماحول سے اجتناب کرے، پرده کا اہتمام کرے اور بد نگاہی سے بچے اور کوئی ایسا کام نہ کرے جو شریعت اسلامی کے خلاف ہو۔ کیونکہ عورت خود ایک چھپانے کی چیز ہے۔ قرآن نے عورت کے نام کو بھی چھپایا ہے۔
ہم یہ دیکھتے ہیں کہ دوسری قومیں عورت کو آج ہر میدان میں آگے کر رہی ہیں لیکن ہم یہ کیوں نہیں دیکھتے کہ اسلام نے ان چیزوں کی اجازت ہمیں چودہ سو سال قبل ہی‌دے دی تھی اور آزادی کے نام پر بھی ہم صرف آزادی نہیں بلکہ حقیقی معنوں میں مغربی تہذیب اور مغربیت کا ساتھ چاہتے ہیں۔ مغرب میں عورت کی آزادی ایک خیالی چیز ہے کیونکہ مغرب نے حقیقت کی دنیا میں کبھی عورت کو مرد کے مساوی حقوق نہیں دئے ہیں۔ مغرب نے اگر کچھ کیا ہے تو صرف یہ کیا ہے کہ عورت کو اس کی نسوانی خصوصیات سے آزاد کرکے اس کو ایسی مخلوق بنا دیا ہے جو مرد کے قریب توضرور ہوگئی ہے لیکن اس کی حیثیت فائدہ اٹھائے جانے والے سامان کی سی ہے بس۔
اگر ہماری بہنیں آزادی کے مفہوم کی اسلامی نقطہ نظر سے واقفیت حاصل کر لیں تو ایک بار پھر صنف نازک سے اس کے روشن مستقبل کی امید کی جاسکتی ہے ۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here