بامِ اقصیٰ سے چلا رشکِ قمر آج کی رات
فرشِ رہ ہو گئی تاروں کی نظر آج کی رات
مِثلُکُم ہی سہی انسان مگر آج کی رات
عرش پر کرنے گیا ہے وہ بسر آج کی رات
ڈھل گئے نُور میں سب ارض و سما کون و مکاں
لامکاں تک ہوئی پروازِ بشر آج کی رات
قابَ قَوسَین سے ادنیٰ ہے مقامِ محمود
سرنگوں کر گئی ادراک کا سر آج کی رات
عشقِ بے تاب کی کیا بات ہے اللہ اللہ
کھل گئے گنبدِ افلاک کے در آج کی رات
شبِ اسریٰ پہ ہوں قربان ہزاروں راتیں
بزمِ ہستی کی ہے تابندہ سحر آج کی رات
بے خبر رفعتِ آدم سے ہے جبریلِ امیں
منزلِ سدرہ ہوئی گردِ سفر آج کی رات
مرحبا سیّدِ مکّی مدنی العربی
عرش سے لائے دعاؤں کا اثر آج کی رات