اوراق

میں وہ بوسیدہ زنگ آلود تالہ کھول کر اپنے قدیمی مکان میں داخل ہوا تو اک پراسرار سی ہلچل کا احساس ہونے لگا، جیسے چند لمحوں پہلے تک یہاں شرارتی سائے اودھم مچاتے رہے ہوں- سورج غروب ہو چکا تھا اور اندھیرے نے اپنی سیاہ چادر دھیرے دھیرے پھیلانی شروع کر دی تھی- میں یہاں کئی زمانوں بعد آیا تھا اور کمرے کی ہر شے گرد و غبار سے اٹی ہوئی تھی- دیواروں سے چونا اکھڑ کر مصوری کے مختلف نمونے بنا رہا تھا- یہ نمونے ویسے ہی تھے، جیسا میں اپنے بچپن میں گھر کے کسی کونے سے اکھڑنے والے چونے کو دیکھ کر تخیل میں لایا کرتا تھا- یہ سب خاکے اب دھندلا چکے تھے مگر ایک کشتی اور عورت کا خاکہ اس وقت سے لے کر آج تک میرے ذہن کے گوشوں میں موجود تھا- حیرت کی بات یہ تھی کہ سامنے اس دیوار پر وہی کشتی اور نامعلوم عورت کا خاکہ نمایاں ہو رہا تھا جسے میں نے کبھی ذہن کے گوشوں سے جدا نہ کیا تھا- اچانک میری نظر فرش پر پڑی تو وہاں جا بجا بے شمار قدموں کے نشانات موجود تھے، جیسے یہاں کوئی چلتا پھرتا رہا ہو- مجھے اب کمرے میں اندھیرا محسوس ہونے لگا تو میں نے پاس پڑے ایک لالٹین کو دیکھا، لیکن بہت عرصہ گزر جانے کے کی وجہ سے اس میں تیل خشک ہو چکا تھا، غبار آلود چمنی پر مکڑی کے ادھورے جالے شام کے اندھیرے میں بھی واضح دکھائی دے رہے تھے- میں نے ادھر ادھر دیکھا کہ شاید کہیں کوئی موم بتی کا ٹکڑا ہی موجود ہو، لیکن جیسے یہاں سے سب کچھ لوٹ لیا گیا تھا- اندھیرے نے اب میری آنکھوں پر اپنے کرخت ہاتھ رکھ دیے تھے، مجھے دیکھنے میں دشواری ہونے لگی تھی، میں نے ایک کونے میں بنی ہوئی بوسیدہ کھڑکی کو کھولا، جس کا ایک کواڑ دیمک زدہ ہو چکا تھا- کھڑکی کچھ مزاحمت کے بعد کھلی تو دھیمی سی دودھیا روشنی اندر آنے لگی- یہ چاند کی روشنی تھی جو آج مکمل بے نقاب ہو کر اپنے پروانوں کو تڑپانے پر تلا ہوا تھا-

کمرے میں روشنی ہوئی تو میری نظر ایک جانب پڑے ایک پرانے پلنگ پر پڑی، جہاں بستر کی جگہ ایک میلی چادر بچھی ہوئی تھی اور اس پر بے شمار بوسیدہ اوراق بکھرے پڑے تھے- ان میں سے کچھ کٹے پھٹے تھے، کچھ مکمل تھے اور بعض تڑے مڑے تھے، جیسے کوئی بچہ ان سے کھیلتا رہا ہو- میں وہیں پلنگ پر بیٹھ گیا اور ان اوراق کو دیکھنے لگا جن پر سیاہی اتر چکی تھی اور کچھ کی تحریر بہت دھندلی ہو چکی تھی- میں یونہی ان اوراق کو الٹا پلٹا کر کچھ پڑھنے کی کوشش کرتا رہا لیکن تحریریں غیر واضح تھیں اور انھیں پڑھنا نہایت مشکل تھا- اچانک ایک ورق پر میری نظر ٹھہر گئی، اس پہ موجود ایک تحریر کا کچھ حصہ بہت واضح تھا، میں نے اسے پڑھنے کی کوشش کی، “میں نے ہر اس شے کا تجربہ کیا جس کا زندگی نے مجھے موقعہ دیا؛ محبت اور خوشی سے لے کر ہجر، درد اور غموں سے آشنائی تک سب مجھے زندگی نے عطا کیا- مگر میں اپنے من میں چھپی بے چینی کو نہ مٹا سکا، میں چین نہ کھوج سکا اور ایک روز۔۔۔۔۔۔۔۔”- اس سے آگے تحریر غیر واضح تھی- میں نے اس ورق کو ایک طرف رکھا اور باقی اوراق کو دیکھنے لگا- مجھے ان تمام اوراق کے نچے دبا ہوا ایک ڈاک لفافہ دکھائی دیا تو میں نے ہاتھ بڑھا کر اسے اس ڈھیر سے نکالا- لفافہ کسی حد تک اچھی حالت میں تھا اور اس پر کسی کا نام یا پتہ درج نہیں تھا- میں نے اس بند لفافے کو کھولا تو اندر ایک خط موجود تھا، اس سے پہلے کہ میں خط نکالتا، اس لفافے سے ایک عجیب اور مسحورکن خوشبو نے میرے دماغ کو تیزی سے ماؤف کر دیا اور میں نے وہاں سے فوری اٹھنا چاہا، مگر پھر میری آنکھوں کے سامنے تاریکی چھا گئی اور میں تمام حسیات سے محروم ہو کر پلنگ پر ڈھے گیا-

رات کا نہ جانے کون سا پہر تھا، مجھے کشتی کے ہچکولے محسوس ہوئے جیسے لہروں کی بے پروائی پر وہ ہراساں ہو رہی ہو، مجھے دھیمی مگر بہت دلکش آواز آنے لگی، ” لہروں کی گہرائی میں ڈوبے۔۔۔ ہوا کی شدت سے لرزے۔۔۔پرانی دعاؤں کی یاد آئی۔۔۔بیتی خوشیوں کی یاد آئی۔۔۔ کہیں تو ملاح کی چلاکی کام آئے۔۔۔ کشتی کو بیچ گہرائی سے بچائے”- میں نے آنکھیں کھولیں تو خود کو ایک پرانی کشتی میں پایا، میرے ارگرد پانی ہی پانی تھا، اور سامنے ایک بوڑھا ملاح چپو چلاتے ہوئے پانی کا کوئی قدیم گیت گا رہا تھا- میں نے اس سے پوچھا کہ میں کہاں ہوں۔۔تم کون ہو۔۔میں کشتی میں کیسے آیا؟ وہ بوڑھا ملاح مسکرایا اور پھر پانی کا گیت گانے لگا- کچھ دیر یہی منظر جوں کا توں رہا اور پھر اچانک مجھے ایک کنارا دکھائی دینے لگا- کشتی کنارے سے لگی تو میں نے پھر بوڑھے ملاح سے اپنا سوال دہرایا تو وہ کہنے لگا اترو اور سامنے درختوں کے جھنڈ میں جاؤ اور وہاں سوالوں کا جواب ڈھونڈو- میں کچھ ہچکچایا مگر اس بوڑھے کی آنکھوں میں ایسا رعب اور دبدبہ تھا کہ میں چپ چاپ کشتی سے اتر کر سامنے درختوں کے جھنڈ کی جانب چلنے لگا- میرے کانوں میں پھر چپوؤں کی آواز آئی اور مجھے یقین ہو گیا کہ بوڑھا مجھے چھوڑ کر جا چکا ہے- میں خاموشی سے کچھ دیر چلتا رہا اور پھر درختوں کے جھنڈ میں داخل ہو گیا جہاں پراسرار مگر دلکش اور فرحت بخش ہوا کے جھونکے محسوس ہو رہے تھے- حیرت کی بات یہ تھی کہ جہاں سے میں آیا تھا وہاں چاند اپنے جوبن پر تھا اور یہاں اس جنگل میں بھی چاند پورا روشن تھا- لیکن جہاں تک میں جانتا تھا، ہمارے علاقے میں ایک دریا کے علاوہ، جو اکثر خشک رہتا تھا، اور کوئی دریا یا سمندر نہیں بہتا تھا- ابھی یہی سوچ رہا تھا کہ سامنے ایک بوسیدہ جھونپڑی دکھائی دی، چند لمحے کچھ سوچنے کے بعد میں اس جھونپڑی میں داخل ہو گیا-

جھونپڑی کیا تھی، اپنے اندر ایک کائنات تھی- جگہ جگہ مختلف انواع و اقسام کے پھول رکھے تھے جن کی خوشبو سے میرے سفر کی تمام تھکاوٹ اترنے لگی تھی، چند شمعیں بھی وہاں روشن تھیں اور چھت سے بے شمار سیپیوں اور گھونگوں کی لڑیاں لٹک رہی تھیں- جب وہ آپس میں ٹکراتی تو ایک دلسوز ساز سنائی دینے لگتا- اچانک میری نظر ایک طرف رکھی اس چھوٹی سی کشتی پر پڑی، یہ ہوبہو وہی کشتی تھی جس پر میں کچھ وقت قبل سوار ہوا تھا، فرق بس اتنا تھا کہ اس کشتی کی جسامت بڑی تھی- میں ابھی اس پر غور کر ہی رہا تھا کہ اچانک مجھے اپنے پیچھے کسی کی موجودگی کا احساس ہوا، میں نے مڑ کر دیکھا تو ایک جواں سال عورت، کلائیوں میں سرخ کنگن نما کچھ زیور پہنے کھڑی تھی- اس کا چہرہ، چہرہ نہیں بلکہ کسی تاریک رات میں دمکتا چاند تھا اور اس کی گہری سیاہ آنکھوں میں پراسرار چمک تھی- اس کے ہونٹوں پر موجود دلکش مسکراہٹ اس کے بے حد مطمئین ہونے کی گواہی دے رہی تھی- میں نے اس سے پوچھا، “تم کون ہو؟” وہ پھر مسکرائی اور کہنے لگی تم نے لکھا تھا، “میں اپنے من میں چھپی بے چینی کو نہ مٹا سکا، میں چین نہ کھوج سکا”- تمہاری اس کشکمش کا جواب ہے میرے پاس- میں نے حیرانی سے کہا کہ یہ میں نے نہیں لکھا- وہ مسکرائی اور کہنے لگی تمہیں یقین نہیں کہ کوئی عورت تمہارے سوالوں کا، تمہاری کشمکش کا جواب دے سکتی ہے، اسی لیے تم اس سے انکاری ہو، وگرنہ کون سا دن نہیں گزرا جب تم نے یہ بات سوچی یا لکھی نہ ہو؟ اب سنو! تم من کا سکون، من سے باہر کھوج رہے ہو، جبکہ وہ تو تمہارے اندر ہی ہے- زیادہ ملکیت پانے کی خواہش یا خود سے مسلسل تجربے کرنے کی آرزو تمہیں چین نہیں دے پائے گی- توقعات کے بل بوتے پر اور رٹے رٹائے طریقوں سے کبھی کسی کو من کے چین تک رسائی نہیں ملی- میں بتاتی ہوں، “چین اور سکون تمہارے اندر ہی ہے، بس ضرورت اس بات کی ہے کہ تم ہر اس شے کو الوداع کہنے کی ہمت کرو جو گزر چکی اور اب تمہاری کسی قسم کی شخصی اور ذہنی سیوا نہیں کرتی- اور یہ یقین پیدا کرو کہ تمہارے لیے جو بھی رونما ہو رہا ہو،وہ تمہاری ہی بہتری اور سکون کی خاطر وقوع پذیر ہو رہا ہے”- یعنی مجھے ملکیت اور تجربات سے وابستگی کو چھوڑ کر کائنات میں ہونے والے بدلاؤ پر اعتماد کر کے خدائی فیصلوں کو قبول کرنا پڑے گا- لیکن یہ سب میں نے نہیں لکھا تھا جس کے بارے میں یہ عورت مجھے نصیحت کر رہی تھی- میں تو فقط اپنے قدیم مکان میں برسوں بعد داخل ہوا تھا، میں ان اوراق کے بارے میں بھی لاعلم تھا جو وہاں پڑے تھے- اچانک وہ عورت آگے بڑھی، میری جانب دیکھ کر مسکرائی اور پھر مزید آگے بڑھ کر میری گال پر بوسہ لے لیا- ایسا مقدس بوسہ جو کسی قسم کی شہوت سے دور تھا- اور پھر اس عورت سے مجھے وہی خوشبو آنے لگی جو وہ لفافہ کھولتے وقت آئی تھی، اچانک مجھے دروازہ کھٹکھٹانے کی آواز آئی، میں نے پیچھے دیکھا تو جیسے دوبارہ اپنی حسیات کھو بیٹھا- میری آنکھ کھلی تو میں اپنی میز پر بیٹھا ہوا تھا اور میرے سامنے میری ڈائری کے ورق بکھرے پڑے تھے جنہیں میں بار بار کچھ لکھنے کی چاہ میں الٹی سیدھی لکیروں سے سیاہ کر رہا تھا- اس دوران مجھے دوبارہ کمرے کا دروازہ کھٹکنے کی آواز آئی۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here