اوقیانوس (ایک خط)

!عزیزم۔۔۔

رات کے کسی پہر انجانے شور نے نیند کے طلسم کو توڑ دیا اور پھر میں رات بھر نیند کے انتظار میں، خیالوں کے دوش پر بند کمرے میں جلتے دودھیا رنگ کے قمقمے کو دیکھتا اور خاموشی کو محسوس کرتا رہا- اس دوران خیالات کی بے شمار لہروں نے مجھے یوں ہچکولے دیے جیسے میں کسی ناؤ کا ملاح بیچ سمندر پھنس کر سمندری لہروں کا کھیل بن گیا ہوں- کہتے ہیں آپ سمندر کو تب تک عبور نہیں کر سکتے جب تک آپ کے اندر ساحل کو چھوڑنے کا حوصلہ نہ ہو- ساحلوں کو الوداع کہہ کر نئے سمندروں اور جزیروں کو کھوجنے کی ہمت کرنے والوں کو بعض لوگ مہم جو یعنی ایڈوینچرر کہتے ہیں اور بعض انھیں ایکسپلورر یعنی کھوجی کا نام دیتے ہیں- میں سوچ رہا ہوں کہ آج کل ہم ہر ایک مشکل سفر کو ہی مہم جوئی کا نام دے دیتے ہیں، حالنکہ ایسا بالکل نہیں ہے- پرانے وقتوں میں یہ لقب اس شخص سے منسوب کیا جاتا تھا جو کسی نئے اور انجان علاقے، راستے، جزیرے یا کسی ایسی شے کو ڈھونڈے جو پہلے کسی کے علم میں نہ ہو- خیال کی ایک اور لہر اٹھی ہے اور دماغ کی ناؤ کی سمت کو بدلتی چلی گئی ہے- ایک دو روز سے ٹائٹن کا ذکر بہت زور و شور سے ہو رہا ہے- اب تم سوچ رہے ہو گے کہ آخر یہ ٹائٹن کیا ہے؟

ٹائٹن دراصل یونانی اساطیر میں شامل دیوتاؤں کی اولین نسل ہے- یونانیوں کے نزدیک ٹائٹنز، یورانوس اور گائیا کی اولاد تھے- ان ٹائٹنز میں کرونوس، اوشانوس اور پرومیتھیس وغیرہ مشہور دیوتا ہیں- شاید تمہیں علم ہو کہ ٹائٹن ہمارے نظام شمسی کے چھٹے سیارے زحل کے چاند کا نام بھی ہے جسے سترھویں صدی کے ایک سائنسدان نے دریافت کیا تھا- مغربی ادب میں طاقت اور عظمت کے لیے ٹائٹنز کا بطور استعارہ یا اس کا علامتی استعمال بھی عام رہا ہے- لہروں کے ذکر میں مجھے کوئی پانیوں کا گیت تو یاد نہیں آ رہا البتہ مشہور زمانہ نظم “پیراڈائز لاسٹ” خیال کی دنیا سے ابھری ہے جس میں ٹائٹنز کا بھی ذکر موجود ہے-

“The Titans, and Earth’s self, arose

From death, and [from] ruin re-ascended,

And reigning through the Earth.”

شاید اسی طاقت کی بنا پر ایک چھوٹی آبدوز کو بھی ٹائٹن کا نام دیا گیا جو ایک عظیم الشان سمندر، یعنی بحر اوقیانوس کی پراسرار گہرائیوں کو کھوجنے کی اہلیت رکھتی تھی اور اسی اہلیت کو ثابت کرنے کے لیے وہ اوقیانوس کی گہرائیوں میں اتری اور پھر کبھی واپس نہ آ سکی- شاید اوشانوس کو یہ کھوج پسند نہیں آئی یا پھر دو ٹائٹنز آپس میں مدمقابل آئے اور اوشانوس کی جیت ہوئی- بہرحال جو بھی تھا انسانی ہاتھوں سے بنا ٹائٹن بے نام و نشان ہو گیا-

خیال کی ایک اور لہر ابھری ہے اور میرے دماغ کی ناؤ کو بہاتے ہوئے اب کی بار اسے بحر اوقیانوس میں لا پھینکا ہے- رات کا نجانے کون سا پہر ہے اور میں پاس رکھی گھڑی کی سبز مائل روشنی سے وقت کا اندازہ کر سکتا ہوں, مگر میں اس خاموش پہر میں وقت کو کھوجنے کی بجائے اس میں تحلیل ہونے کو ترجیح دے رہا ہوں- میں دیکھتا ہوں کہ بحر اوقیانوس کی وسعت اور اس سے جڑی بے شمار داستانیں میرے سامنے آن ٹھہری ہیں- انسانی تاریخ کو جنم دینے والا یہ بحر بیکراں، امریکہ سے یورپ اور افریقہ تک پھیلا ہوا ہے- کسی نے کہا تھا،

“The ocean stirs the heart, inspires the imagination, and brings eternal joy to the soul.”

تمہیں معلوم ہو گا کہ اس سمندر کا نام بھی یونانی اساطیری داستانوں میں شامل ایک کردار “اوشانوس” پر رکھا گیا ہے- اوقیانوس کے گوشوں کو دریافت کرنے میں کئی ہزار سال کی مہم جوئی شامل ہے- فونیقیوں( فونیشنز) سے لے کر یونانیوں تک اور پھر قرطاجنہ(کارتھیجینینز) نے سمندری مہم جوئی کے ذریعے افریقہ اور یورپ کے ساحلوں تک رسائی حاصل کی- ان کے علاوہ وائکنگز، لیف ایرکسن کی سربراہی میں دسویں صدی میں شمالی امریکہ تک پہنچے- اور یہ مغربی تاریخ کا ایک اہم حصہ ہے- پھر کولمبس، واسکو ڈے گاما، جان کیبٹ فرڈی نینڈ گیبلن اور ہنری ہڈسن وغیرہ بھی اسی اوقیانوس کے پانیوں میں پھرتے اور نئی دنیاؤں کو کھوجتے ہوئے نظر آتے ہیں- میں تمہیں بتاؤں مجھے ان لہروں پر شمالی افریقہ کے مسلمان بربر ملاح بھی دکھائی دے رہے ہیں جنہیں مغربی دنیا قزاق یا پائریٹس کا نام دیتی ہے- منساء موسی اول اور ابو بکر دوم یہ دونوں بھی اس بحرہ اوقیانوس کی لہروں پر اپنے اپنے بحری بیڑوں سمیت سفر کرتے نظر آتے ہیں- لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ اوقیانوس کو زیادہ تر مغربیوں نے کھوجا اور نئی دنیاؤں تک پہنچے- گو کہ مسلمان بھی بحری علوم میں پیچھے نہیں تھے لیکن یہ زیادہ تر بحیرہ روم، بحر ہند، بحر احمر اور دیگر تجارتی راستوں پر غالب رہے-

 میں سوچ رہا ہوں کہ اوقیانوس جب پرسکون ہوتا ہو گا تو یقیناً ملاحوں کو ہزاروں سال پر محیط سمندری داستانوں اور پراسرار رازوں سے آشنا کرتا ہو گا، بے شمار مہم جوؤں اور ان غلاموں کے بارے میں بتاتا ہو گا جو اوقیانوس اور اپنے مالکوں کی سختی برداشت نہ کرتے ہوئے مارے گئے- پھر خیال کی لہر رخ بدلتی ہے تو احساس ہوتا ہے کہ جب یہ غضب ناک ہوتا ہو گا تو پھر چاہے ٹائٹن ہو یا ٹائٹینک یا کوئی مہم جو، سب کو ایک ہی لہر میں یوں غائب کر دیتا ہو گا جیسے وہ کبھی تھے ہی نہیں- رات اوقیانوس کی طرح تاریک مگر پرسکون ہے اور وقت سے عاری ہو کر بہتی چلی جا رہی ہے-

 میں کروٹ بدلنا چاہتا ہوں، دماغ کی ناؤ کو اوقیانوس سے باہر نکال کر کسی پرسکون تصور کے ساحل پر لنگر انداز ہونا چاہتا ہوں، لیکن خیالوں کے یہ قزاق مجھے ہر طرف سے گھیرے ہوئے ہیں- آخر رات کے کسی پہر یہ نیند ٹوٹتی ہی کیوں ہے؟ انسان بستر پر سر رکھے اور نیند کی چادر اسے ڈھانپ لے اور پھر بوقت سحر ہی وہ چادر ہٹے، لیکن ایسا ہو نہیں پاتا- دماغ کی ناؤ کو لنگر انداز ہونے کا موقعہ ہی نہیں ملتا، یوں یہ ناؤ خیال کی لہروں پر کبھی ڈوبتی اور کبھی ابھرتی ہوئی محو سفر رہتی ہے- اور میں۔۔۔۔۔۔۔کسی ملاح کی مانند کبھی سوچ کے چپوؤں کو سنبھالتا ہوں اور کبھی احساسات کے بادبانوں کو لپیٹتا ہوں کہ کہیں خیال کی غضب ناک لہریں انھیں نقصان نہ پہنچائیں-

رات تیزی سے بیت رہی ہے اور شاید سحر قریب ہے۔۔۔ میں کروٹ بدل چکا ہوں اور اب نیند کا طلسم پھر سے مجھ پر حاوی ہونے لگا ہے- اس سے پہلے کہ اوقیانوس مجھے اپنی گہرائیوں میں کھینچے، مجھے اس طلسم سے مسحور ہونے دو- دل چاہتا ہے پانیوں کا کوئی دلکش گیت گاؤں مگر کہیں یہ گیت پھر سے مجھے ملاح نہ بنا دے، میں سوتا ہوں-

!شب بخیر میرے دوست

تمہارا اپنا۔۔۔

عبداللہ

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here