اپنی زمین اور کہیں ہم سجائیں گے
احسان اس جہاں کا نہ ہرگز اُٹھائیں گے
جن کو پتہ نہیں ہیں زمانے کے پیچ و خم
وہ حال پر ہمارے ابھی مسکرائیں گے
جن کا وجود آج خزائوں نے ڈس لیا
ایسے درخت کام چتائوں کے آئیں گے
ہم بے حسی کی راہ میں کب سے ہیں گام زن
پردے سے اپنے چہرے کو کب تک چھپائیں گے
مدت کے بعد یاد رتری دل کو آئی ہے
نقش و نگارخاک پہ تیرے بنائیں گے
بجھ جائیں گے جہان میں باطل کے سب چراغ
عادل ہمارے دیپ ہی بس جگمگائیں گے