ایم ۔اے ۔او کالج علی گڑھ کو بنانے اور اس چمن کو سینچنے میں جہاں سرسید علیہ الرحمہ کی شبانہ روز محنت و مشقت اور اس سے زیادہ ان کے خلوص و لگن کو دخل تھا وہیں کالج کی تعمیر و ترقی میں سرسید کے نامور رفقاء شبلی، حالی، محسن الملک، وقارالملک، مولوی سمیع اللہ وغیرہ کی کوششوں کا بڑا ہاتھ تھا۔ اس کے علاوہ طلباء کی تعلیم و تربیت کے لئے کالج کے لائق و فائق اساتذہ نے دن رات ایک کرکے استادی کاحق ادا کیا، ان میں انگریز و ہندوستانی سب ہی شامل تھے، جن میں اہم نام تھیوڈور ماریسن، آرنلڈ، تھیوڈور بیک وغیرہ کاہے۔
۱۹۲۰ء میں کالج نے ترقی کرکے یونیورسٹی کا درجہ حاصل کیا تب سے( تقریباً ایک صدی کا عرصہ)یہ یونیورسٹی ہزاروں تشنگان علم کو سیراب کرتی آرہی ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی ترقی میں جہاں اساتذہ اور طلباء کا اہم رول رہا وہیں علی گڑھ کے وائس چانسلرس نے بھی اس یونیورسٹی کو عالمی شہرت دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ علی گڑھ نے اب تک کم و بیش۲۲ وائس چانسلروں کا دور دیکھا، موجودہ شیخ الجامعہ پروفیسر طارق منصور صاحب ۲۳ویں ہیں۔ ان میں کچھ وائس چانسلر اچھے ایڈمنسٹیٹر اور اعلیٰ درجہ کے منتظم ثابت ھوئے، کچھ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور علم پرور ہوئے، کچھ ایسے بھی تھے جن کے دور میں یونیورسٹی میں ایک قسم کی بے چینی و سراسیمگی پھیلی رہی اور کیمپس کے ماحول کو پرامن وپرسکون بنانے میں وہ ناکام رہے۔ لیکن انہیں میں کچھ ایسے اسٹرکٹ اور انتظامی معاملات میں اتنے سخت تھے کہ ہزار مخالفتوں کے باوجود ان کے پیر نہیں ڈگمگائے اور ان کے پایہ استقامت میں ذرا سی لغزش نہیں آئی اور انہوں نے کامیابی کے ساتھ اپنی مدت کار کو پورا کیا۔
اول دن سے ہی یونیورسٹی کے کچھ اساتذہ وائس چانسلر کے قریبی و ہم راز رھتے حتی کہ ان کے عمل دخل کے بغیر وائس چانسلر کوئی قدم نہیں اٹھاتے تھے، دوسری طرف تدریسی عملہ کی ایک بڑی تعداد ایسی بھی رہی جن کی وائس چانسلر سے ہمیشہ اَن بن رہی۔ شاید اس میں کچھ دخل ان وائس چانسلروں کے مزاج کا بھی ہوتا ھو جو یونیورسٹی کے ماحول میں بالکل نو وارد ہوتے اور انہیں کیمپس کو سمجھنے و برتنے میں ایک عرصہ لگ جاتا، شاید اسی مزاج کے وائس چانسلروں کے لئے اسلوب احمدانصاری مرحوم نے لکھاتھا:
”انہوں (سید حامد) نے انانیت اور پندار کا وہ مظاہرہ نہیں کیا جو سرکاری انتظامی سرگرمیوں کو ختم کرنے کے بعد یونیورسٹی کی دہلیز پر قدم رکھنے والے وائس چانسلر بالعموم کرتے ہیں، جو ایک طرح سے اپنے آپ کو فطرت کی ایک نادر اور اچھوتی مخلوق بھی متصور کرتے ہیں اورخلاصہ کائنات بھی اور جملہ علوم وفنون کا جامع اورمنتہی بھی۔ سرکاری دفاتر کی فضا کو چھوڑ کر جب وہ یکبارگی یونیورسٹی کے علم و ادب کے ماحول میں قدم رنجا ہوتے ہیں تو پہلے کچھ دن تک اپنے آپ کو ماہی بے آب کی طرح محسوس کرتے ہیں پھر انہیں یہ ماحول کچھ پر کشش معلوم ہونے لگتا ہے اور وہ اس کے اسیر ہوجاتے ہیں۔ پر کچھ اور مدت گذرنے پر غالبا اندرونی اور غیر شعوری احساس کمتری پر قابو پانے کیلئے انانیت اور نخوت و تکبر یا بالفاظ دیگر اپنی افسری شان کا مظاہرہ کرنا بھی ضروری سمجھنے لگتے ہیں۔“ (تہذیب الاخلاق،فروری،۲۰۱۵،ص:۳۲)
میری ناقص رائے میں یونیورسٹی کے حق میں وہ وائس چانسلر زیادہ کامیاب ثابت ہوئے جنہوں نے علی گڑھ کو قریب سے دیکھا اور برتا تھا یا بطور طالب علم وہ اس ادارہ سے منسلک رہے تھے۔ کیونکہ وہ زیادہ بہتر طریقے سے اپنی مادر درسگاہ کو سجھتے تھے۔ ان میں سب سے نمایاں نام سر راس مسعود کاہے، آپ سرسید کے حقیقی پوتے تھے، انگلینڈ سے بیرسٹری کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی تھی، سرسیدکی پرورش میں پلے بڑھے تھے اور علی گڑھ تحریک کو قریب سے دیکھا تھا۔ ایک وقت کو لگنے لگا تھا کہ علی گڑھ اپنی قدیم تاریخ و تہذیب سے کٹتا جارہا ہے اور اس کا اپنے شاندار ماضی اور روایات سے رشتہ کمزور ہوتا جارہا ہے اور یونیورسٹی آپسی تنازعات و تعلیمی بدنظمی کاشکار ھوتی جارہی ہے تو ایسے نازک وقت میں سر راس مسعود ہی نے علی گڑھ کی عظمت رفتہ کوبحال کیا تھا اور علی گڑھ کو اس کا کھویا ہوا وقار واپس دلایا تھا۔
مولوی عبد الحق نے لکھا ہے:
” مسعود سا وائس چانسلر مسلم یونیورسٹی کو کبھی نصیب ہوا تھا نہ شاید آئندہ ملے۔ یہ کم نصیب یونیورسٹی اس زمانہ میں عجیب ضغطے میں پڑی ہوئی تھی۔ اس کی بدنامی اور رسوائی دور دور تک پہنچ گئی تھی۔ حاسدوں کو حیلہ ہاتھ آگیا تھا۔ مسعود کے آتے ہی رنگ بدل گیا۔ اس نے اپنی ذاتی وجاہت اور اثر اور کوشش سے بدنامی کا دھبا مٹایا، کھوئے ہوئے وقار کو بحال کیا، بڑھایا اور اوج تک پہنچادیا۔ مایوسی کو امید سے بدل دیا۔ طلبہ اور اساتذہ میں ایک نئی زندگی پیدا کردی۔ روپیہ اتنا لایا کہ کسی کے خواب و خیال میں بھی نہ تھا۔ سید احمد خاں کو اگر اس کا عشر عشیر بھی ملتا تو انہیں شادی مرگ ہوجاتی“۔ ( راس مسعود،حکیم سید ظل الرحمن،ص: ۸۱۱)
علی گڑھ کے شیوخ الجامعہ کی فہرست میں دوسرا اہم نام سر ڈاکٹر ضیاء الدین احمد کا ہے، جنہوں نے وقفہ وقفہ سے دوبار وائس چانسلر کے طور پر اپنی خدمات دیں اور ان کی شبانہ روز جدوجہد سے علی گڑھ اوراس کاوقار بام عروج پر پہنچ گیا تھا، میڈیکل کالج اور توسیع شدہ انجینئرنگ کالج ان کے زمانہ کی یادگار ہیں۔ ایک پرانے علیگ نے ان کی شخصیت اور ان کی محنت و لگن اور قوم کے تعلق سے ان کی سچی ہمدردی کا کیا خوب نقشہ کھینچا ہے:
”درمیانہ قد، دُہرا بدن، رنگ بڑھاپے میں بھی سُرخ و سپید، داڑھی سفید چھوٹی سی،مزاج میں سادگی، طبیعت میں بذلہ سنجی، چہرہ پُر وقار اور متانت کا مظہر، عقابی آنکھیں، جو ان کی ذہانت کی غمازی کرتی تھیں۔ زبان نہایت سلیس، خدمت ان کاشعار، سیاست اُن کا اوڑھنا بچھونا، الیکشن ان کا روزمرہ، بڑے سے بڑا حریف بھی منقار زیر پرکئے رہتا تھا۔اقتدار ان کے قدم چومتا تھا۔ منتظم ایسے کہ جس ادارے کے سربراہ ہوجائیں تو اس کی انتظامیہ کا ایک ایک پرزہ نظر میں رکھیں۔ ہمدرد ایسے کہ اگر ان کا بس چلتا تو دنیا جہاں کی ساری آسائش سمیٹ کر مسلمانوں کے قدموں پہ ڈال دیتے۔ دیانت کے کوہ ہمالہ۔ جی ہاں کوہ ہمالہ“۔(،علی گڑھ کے چارسال، مصنفہ محفوظ الحق حقی،ص:۸۸)
میڈیکل کالج کے قیام کے سلسلہ میں ڈاکٹر صاحب نے برصغیر کی زمین کو درّہ خیبر سے لے کر رنگون تک اور ہمالہ کی ترائیوں سے لے کر راس کماری تک ناپا تھا تب کہیں جاکر اتنا فنڈجمع ہوا تھا۔ ڈاکٹر نسیم انصاری نے بھی اپنی خودنوشت ”جواب دوست“ میں خاصی تفصیل سے ڈاکٹر سر ضیاء الدین کا تذکرہ کیا ہے اور میڈیکل کالج کے لئے ان کی کوششوں کو سراہا ہے اور علی گڑھ کے لئے ان کی خدمات کااعتراف کیاہے۔
علی گڑھ کے وائس چانسلروں میں ایک اہم و معروف شخصیت ڈاکٹر ذاکرحسین کی رہی جوبعد میں صدرجمہوریہ ہند بھی بنائے گئے۔ رشید احمد صدیقی نے بطور وائس چانسلر ذاکر صاحب کی خدمات کو سراہتے ہوئے لکھا ہے کہ:
” علی گڑھ پر بڑا سخت وقت گذر رہا تھا، جیسے کسی لرزہ خیز زلزلہ کی زد میں ہو۔ پورے ملک میں اس وقت ذاکر صاحب کے علاوہ کوئی نہ تھا جو اس عظیم علمی، تاریخی اور تہذیبی ادارے کو بچانے اور بحال کرنے کی بیکراں اور بے امان ذمّہ داری قبول کرنے کا اہل ہوتا یا اس کی ہمت کرتا۔ آزادی سے چند سال پہلے ہندوستانی سیاست نے جو رنگ و رخ اختیار کیا تھا اس سے علی گڑھ شدید طور سے متاثر ہوا تھا۔ اس لیے تقسیمِ ملک کے بعد پورے ملک میں تعصب و تخریب کے جو عناصر ابھرے، علی گڑھ ان کا خاص نشانہ بنا۔ علی گڑھ میں ذاکر صاحب محض وائس چانسلر نہ تھے جو بندھے ٹکے دفتری یا انتظامی طور طریقوں سے کام لینے اور کرنے کو سب کچھ جانتے ہوں، ان کی وائس چانسلری ایک عالی صفات شخص کی قیادت تھی، جس پر نہ صرف علی گڑھ کو بلکہ اس کے باہر بھی ہر چھوٹے بڑے کو اعتماد و افتخار تھا۔ اس طور پر ذاکر صاحب کے عہد میں علی گڑھ نئے ہندوستان میں اعلیٰ علمی، تعلیمی و تہذیبی سرگرمیوں کا مرکز بن گیا۔ (ہمارے ذاکر صاحب، رشید احمد صدیقی، ص: ۹۹۔۶۹)
کرنل بشیر حسین زیدی کا شمار بھی علی گڑھ کے کامیاب وائس چانسلروں میں ہوتا ہے۔ اسّی کی دہائی میں ایک ایسی شخصیت کا تقرر بطورشیخ الجامعہ ہوا جو علی گڑھ کے ہی پروردہ تھے، آئی ۔اے ایس بنے، ملک کے اعلیٰ عہدوں پر رہے، اسٹاف سلیکشن کمیٹی کے چیئرمین بھی بنائے گئے، میری مراد عہد ساز شخصیت سیدحامد مرحوم (متوفی فروری ۲۰۱۵ء) سے ہے، آپ نے انگریزی اور فارسی میں ڈبل ایم اے کیا، جتنی اچھی انگریزی اور اردو لکھتے تھے اتنی ہی اچھی بولتے بھی تھے، بقول استاذِ محترم پروفیسر ایم سعود عالم قاسمی صاحب:
” سید حامد صاحب کو قدرت نے تقریر اور تحریر دونوں کی یکساں صلاحیت ودیعت کی۔ اُن کی تقریر بھی تحریر ہی کی طرح گراں مایہ ہوتی تھی۔ انداز سلجھا ہوا لہجہ ٹہرا ہوا، الفاظ مخرج سے سکوں کی طرح ڈھلتے ہوئے، انگریزی تقریر ہو تو ڈکشنری کی ضرورت پڑے اور اردو میں خطاب ہو تو سخن دان فارس کی یاد تازہ ہو، ان کا علمی خطاب تحلیل و تجزیہ سے خالی نہیں ہوتا، نکتوں اور نصیحتوں سے خالی نہیں ہوتا اور عوامی خطاب سے بھی علمی رنگ غائب نہیں ہوتا تھا“(تہذیب الاخلاق، فروری ۲۰۱۵،ص:۸۰)۔
ہندی زبان پر بھی خاصی دسترس رکھتے تھے، شعر بھی کہہ لیتے تھے، آپ کے مضامین و اشعار کے کئی مجموعے شائع ہوچکے ہیں، مرحوم نے اپنے دور وائس چانسلری میں ایک عظیم کارنامہ یہ انجام دیاکہ تہذیب الاخلاق جو ایک لمبے عرصہ پہلے بند ہوچکا تھا یکم فروری ۱۹۸۲ء کو دوبارہ جاری کیا جو آج تک پابندی سے شائع ہورہا ہے۔ اسی کے ساتھ ہندی رسالہ”نشانت‘ ‘ کااجراکیا۔
سیدحامد کے دور کا ایک اہم کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے چیئرمین کی مدت گھٹا کر تین سال کردی ورنہ اس سے پہلے دس دس سال تک چیئرمین ڈپارٹمنٹ پرمسلط رہتے اوراپنی مرضی چلاتے، سیاہ وسفید کے مالک ہوتے، اس سے چیئرمین حضرات کی من مانیاں کافی حد تک کم ہوئیں اورانتظامی معاملات میں شفافیت آئی۔
سید حامد کے دور میں طلباء کے درمیان بہت ہنگامے اور شورشیں ہوئیں، انہوں نے ایک سخت و بیدار مغز ایڈمنسٹیٹر کی طرح ٹریٹ کیا اور کیمپس میں موجود شر پسند عناصر کو کھدیڑ کر ہی دم لیا جس سے طلبا و اساتذہ کا ایک بڑا طبقہ وائس چانسلر سے نالاں ہوگیا، لیکن ان کے یہ اقدامات یونیورسٹی اورطلباءکے حق کے لئے تھے نہ کہ اپنے کسی ذاتی مفاد کے لئے، مرحوم کی کوئی غرض اس سے وابستہ نہ تھی۔
محترم پروفیسر ریاض الرحمن خاں شروانی صاحب(مرحوم) نے مرحوم پر اپنے تعزیتی مضمون میں اسی لئے لکھا ہے کہ سیدحامد نے سارا کچڑا صاف کردیا اور اپنے بعد آنے والوں کے لئے آسانی کردی، شروانی صاحب کے ہی بقول ’سیدحامد کے جانشین سید ہاشم علی صاحب اعتراف کرتے تھے کہ مجھے کام کرنے کے لئے جو صاف ستھرا ماحول ملا ہے وہ برادر مکرم کی دین ہے‘۔ سید حامد نے صحیح معنوں میں سرسید کے وژن کو آگے بڑھایا اور آپ سرسید کے سچے جانشین ثابت ہوئے،اسی لئے آپ کو سرسید ثانی کہا گیا۔
نوے کی دہائی میں محمود الرحمن جیسا نڈر اور اعلیٰ درجہ کا منتظم وائس چانسلر علی گڑھ کو نصیب ہوا جنہوں نے کیمپس میں پنپ رہی غنڈہ گردی اور پھیلتی لاقانونیت اور شرپسند عناصر پر بہت حد تک قابو پالیا اور ال لیگل رہ رہے طلباء کو نکال باہر کیا اور مسلم یونیورسٹی کی بہت سی مقبوضہ زمینوں کو آزاد کرایا۔
میراجب ایم۔اے میں داخلہ ہوا تو پی کے عبد العزیز صاحب کا آخری دور تھا، اس کے بعد ریٹائرڈ جنرل ضمیر الدین شاہ وائس چانسلر منتخب ہوکر آئے، میری ناقص رائے میں ان کا دور اس اعتبار سے کامیاب رہا کہ ان کے دور وائس چانسلری میں یونیورسٹی ایک بھی دن کے لئے بند نہیں ہوئی حالانکہ یونیورسٹی پر کئی سخت حالات آئے لیکن ان کی انتظامی صلاحیت کی داد دینی پڑیگی کہ انہوں نے کامیابی کے ساتھ اپنا Tenure پورا کیا۔
اگر علی گڑھ کے وائس چانسلرس کی خدمات اور ان کے دور کے اہم کارناموں پرکام کیا جائے تو یہ ایک وقیع کام ہوسکتا ہے جس سے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی عہد بہ عہد ایک پوری تصویر سامنے آجائے گی اور اسے یقینا ایک تاریخی دستاویز کی حیثیت حاصل ہوگی۔ ذیل میں علی گڑھ کے وائس چانسلرس کی فہرست ان کی مدت کار کے ساتھ دی جارہی ہے:
۱۔ محمد علی محمد خان(راجہ صاحب محمودآباد)….دسمبر 1920 تا فروری 192
۲۔ صاحبزادہ آفتاب احمدخان….جنوری 1923 تا دسمبر 1926
۳۔ نواب محمد مزمل اللہ خان شروانی….جنوری 1927 تا فروری 1929 ….[مارچ 1923 تا دسمبر 1923 (عارضی)
4۔ سر سید راس مسعود صاحب….فروری 1929 تااکتوبر 1934
۵۔ ڈاکٹر سرضیاءالدین احمد صاحب….اپریل 1935تا اپریل 1938
6۔ سر شاہ محمد سلیمان صاحب….اپریل 1938 تا مارچ 1941، فروری 1929 تا اکتوبر 1929، جولائی 1930 تا اکتوبر 1930 (عارضی)
7۔ سر ڈاکٹر ضیاءالدین احمد….اپریل 1941 تا اپریل 1947
8۔ زاہد حسین صاحب….اپریل 1947 تا اگست 1947
9۔ نواب محمد اسماعیل خان….اکتوبر 1947 تا نومبر 1948، اکتوبر1934 تاا پریل 1935 (عارضی)
10۔ ڈاکٹر ذاکر حسین صاحب….نومبر 1948 تاستمبر 1956
11۔ کرنل بشیر حسین زیدی صاحب….اکتوبر 1956 تانومبر 1962
12۔ بدرالدین طیب جی صاحب(آئی سی ایس)….نومبر 1962 تا فروری 1965
13۔ نواب علی یاور جنگ صاحب….مارچ 1965 تا جنوری 1968
14۔ پروفیسر عبدالعلیم صاحب….جنوری 1968 تا جنوری 1974
15۔ پروفیسر اے ۔ایم خسرو صاحب….ستمبر 1974 تا ستمبر 1979
16۔ جناب سیدحامد صاحب(آئی اے ایس)….جون 1980 تا مارچ 1985
17۔ سید ہاشم علی صاحب(آئی اے ایس)….8 اپریل 1985 تا ۵ اکتوبر 1988
18- پروفیسر ایم،این فاروقی صاحب….اکتوبر 1990 تا دسمبر 1994
19۔ ڈاکٹر محمودالرحمن صاحب(آئی اے ایس)….۱مئی 1995 تا ۲۸ مئی 2000
20۔ محمد حامد انصاری صاحب(آئی ایف ایس)….۲۸ مئی 2000 تا ۳۰ مارچ 2002
21۔ نسیم احمد صاحب(آئی اے ایس)….۸ مئی 2002 تا 7 اپریل 2007
22۔ پروفیسر پی ،کے عبدالعزیز صاحب….۱۱ جون 2007 تا 17 جنوری 2012
23۔ لیفٹنٹ جنرل ضمیرالدین شاہ صاحب(ریٹائرڈ)….17 مئی 2012 تا 14 مئی 2017
24۔ روفیسر طارق منصور صاحب….17 مئی 2017 تا حال………………..