ہر روز ایک حادسہ برپہ ہوتا ہے مجھ میں
ہر روز کئ جنازے اٹھتے ہیں مجھ میں
شام سے پہلے شام ہو جاتی ہے
اور رات کسی کے نام ہو جاتی ہے
رنج و غم مصائب کا امکان ہو جاتی ہے
زندگی یونہی پشیمان ہو جاتی ہے
زیست کسی آسیب کا سایہ ہے مجھے
جس نے با رہا ستایا ہے مجھے
بظاہر مرا عکس بہت حسین ہے
اندر جھانک کر دیکھو کتنا غمگین ہے
یہ اور بات آندھیوں نے خوب بجھایا ہے
میں نے امید کا چراغ ہر شام جلایا ہے
مجھے دکھ ہے میری آنکھیں اب نم نہیں
مجھے دکھ ہے میرے سینے میں کوئ غم نہیں
اک راستے سے ایک منزل جدا ہو گئ
مجھے دکھ ہے کہ میں اور تم اب ہم نہیں
صبح کو جیسے تیسے شام کیا ہے
یوں زندگی کے تلخ لمحات میں قیام کیا ہے
وہ لمحات جن میں ایک پل رکنا محال تھا
تجھے کیا خبر کہ اذیتوں سے میرا کیسا حال تھا