آج عالمی یوم عورت ہے ، اتفاقا آج ہولی بھی ہے میں یہ نہیں کہتا کہ عورتیں رنگین ہوتی ہیں مگر اس سے انکار بھی نہیں کہ عورتوں کا رنگوں سے کوئ تعلق نہیں ، عورتیں تو دینا میں رنگ گھولے ہوئی ہیں۔اقبال نے کہا کہ ٓٓٓ
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی میں سوز ردوں
خیر میں عورتوں کی رنگت اور انکی رنگینیت پر بات کرنے نہیں بیٹھا میں تو بس قلم چلاۓ جا رہا تھا کہ کچھ لکھ دوں۔ لکھتے ہوۓ سوچا کہ عورتوں کا کیا روپ پیش کروں اسے ماں کا روپ دوں یا بہن کا، بیوی کا روپ دوں یا دوست کا مجھے تو کبھی ماؤں اور بہنوں کے سوا کسی عورت سے پالا ہی نہیں پڑا۔ پھر خیال آیا کہ بچپن میں ہماری دوستیاں لڑکوں کے علاوہ لڑکیوں سے بھی تھی کیوں نہ اسی روپ کو پیش کردوں مگر ہمارے بچپن میں اور اب کے بچوں کے بچپن میں کافی فرق آ گیا ہے۔ آئیے اسی فرق کو دیکھتے ہیں۔
مجھے میرے بچپن کے دوستوں میں کوئی لڑکی یا کوئی لڑکا نہیں دکھا مطلب کہ لڑکے اور لڑکیاں کامن تھے ایک ہی قسم کی بولی ایک ہی قسم کا اسکول اور ایک ہی قسم کے کپڑے۔ سب کچھ لگ بھگ کامن ہی تھا۔ ہمارا کھیلنا کودنا اور کھانا پینا سب یکساں ہی تھا لڑکے لڑکیوں کے کھیل کھیلتے اور لڑکیاں لڑکوں کے کھیلوں میں حصہ لیتیں ۔
پھر جب ہم ۱۳ویں سال کو پہنچے تو ہم کو سماج نے الگ کر دیا یہ ایک گھنٹی تھی کہ اب ہماری ٹین ایج کی شروعات ہو چلی ہے ۔ اس موڑ پر احساس ہوا ہے کہ لڑکے اور لڑکیاں الگ ہیں۔ انکی الگ ذمہ داریاں ہیں اور ہماری الگ ذمہ داریاں ہیں ۔خیر ہمیں اس کا احساس ہونے لگا اور ہم نے بھی اس بٹوارے کو تسلیم کر لیا۔
خیر یہ تو ہمارا بچپن تھا مگر اب ایسا نہیں ہوتا میں نے غور کیا ہے کہ اب کے بچے اور بچیاں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بالخصوص شہروں کے ۔۔۔۔بالکل الٹ کرتے ہیں انکے بچپن میں لڑکے اور لڑکیاں ٹین ایج سے پہلے تک الگ الگ رہتے ہیں اور جب سن شعور کو پہنچتے ہیں ماں باپ یہ کہہ کر کہ اب بچے سمجھ دار ہو گئے ہیں ان کو آزاد کر دیتے ہیں۔ اور یہ ۱۲ سال بعد ملنے لگتے ہیں۔ یعنی ہمارے بچپن میں جو فراق کا موڑ تھا اب وہ وصال کا موڑ بن گیا ہے۔ زمانہ بالکل بدل گیا ہے۔