سائنسی حسن کی حسین ترجمانی کرنے والا شاعر:مجاز لکھنوی

Image Source: Amar Ujala

اسرار الحق مجاز 19 نومبر 1911ء کو قصبہ رودولی ضلع بارہ بنکی کے زمیندار گھرانے میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام چودھری سراج الحق اور دادا چودھری احمد حسین تھے۔ابتداء میں شہید تخلص اختیار کیا پھر اس کے بعد “مجاز” تخلص کرنے لگے۔لکھنؤ کی تہذیب و تمدن اور شعر وادب سے وابستہ ہونے پر اس قدر متأثر ہوئے کہ اپنے تخلص میں لکھنوی جوڑ لیا اور مجاز لکھنوی کے نام سےمشہور ہوئے۔

مجاز ایک ذہین طالب علم تھے۔ان کی ابتدائی تعلیم رودولی کی ایک درسگاہ میں ہوئی۔پھر وہ لکھنؤ آ گئے جہاں ان کے والد بھی ملازمت کرتے تھے۔

مجاز نے لکھنؤ امین آباد کے ایک اسکول میں داخلہ لے لیا اور وہیں سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔پھر اس کےبعد جب والد کا تبادلہ آگرہ میں ہوا تو مجاز بھی آگرہ آ گئے اور1929ء میں آگرہ کے سینٹ جانس کالج میں انٹر میڈیٹ میں داخلہ لیا۔ آگرہ میں انھوں نے سائنس کے موضوعات کا انتخاب کیا تھا کیوں کہ وہ انجینئر بننے کے خواہش مند تھے۔یہ بھی حسین اتفاق تھا کہ جس محلے میں وہ رہتے تھے وہاں مشہور غزل گو شاعر فانی بدایونی کا بھی قیام تھا۔مجاز نے اپنی کچھ ابتدائی غزلوں کی اصلاح فانی بدایونی سے لی۔لیکن فانی یاسیات کے شاعر تھے۔اس لئے انھوں نے مجاز سے کہا۔”تمہاری غزلوں پر نشاط کا رنگ ہے۔ میرا غم تمہاری جوانی اور نشاط کو روند ڈالے گا۔اس لئے آئندہ مجھ سے اصلاح نہ لیا کرنا”۔

فانی بدایونی کے علاوہ مجاز کی ملاقاتیں آگرہ میں معین احسن جذبی،میکش بدایونی،اور آل احمد سرور سے بھی ہوئیں۔پھر اس کے بعد مجاز علی گڑھ آگئے اور 1935ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے بی اے کیا۔

اس دوران ان کی ملاقات علی سردار جعفری،سبط حسن،جاں نثار اختر،حیات اللہ انصاری،اختر حسین رائے پوری، معین احسن جذبی،اختر الایمان،مسعود اختر جمال وغیرہ سے برابر ہوتی رہتی تھیں۔جس کے زیر اثر ان کی شاعری مزید پروان چڑھی۔

وہ1936ء میں دہلی ریڈیو اسٹیشن سے شائع ہونے والے رسالے “آواز” کے پہلے مدیر مقرر کیے گئے۔ کچھ عرصہ تک بمبئی انفارمیشن ڈیپارٹ منٹ میں بھی کام کیا اور پھر لکھنؤ آکر “نیا ادب” اور “پرچم” کی ادارت کی۔ اس کے بعد دہلی میں “ہارڈنگ لائبریری” سے وابستہ ہوگئے۔مگر مجاز کی طبیعت میں مستقل مزاجی نہیں تھی وہ ایک انقلابی ذہن رکھتے تھے۔ملازمت میں ان کا دل نہیں لگتا تھا۔اس لئے انہوں نے ملازمت کو چھوڑ کر خود کو شعر و ادب کے لئے وقف کر دیا۔مجاز کی شاعری میں نرم و نازک آہنگ،رومانیت کی عکاسی،سوز و گداز اور تخیل کی سحر انگیزی دیکھنے کو ملتی ہے۔ترقی پسند تحریک سے وابستہ ہونے کے بعد ان کی شاعری انقلابی رنگ میں ڈھلتی چلی گئی۔

ان کی مشہور تصانیف میں “آہنگ”، “شب تار” اور “ساز نو” بہت مقبول ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کی کلیات بھی 2002ء میں شائع ہو چکی ہے۔

لیکن افسوس صد افسوس اردو ادب کے فلک پر یہ ستارہ کچھ مدت کے لئے روشن ہوا اور 5 دسمبر 1955ء میں ہمیشہ کے لئے ڈوب گیا۔

  اگر ہم مجاز کی 44 سالہ زندگی پر نظر ڈالیں تو بحیثیت شاعر ان کی عمر بہت مختصر نظر آتی ہے۔

اس مختصر مضمون میں مجاز کی شاعری کو سائنسی نقطہ نظر سے پرکھنے کی سعی کی گئی ہے۔کیوں کہ مجاز نے سائنسی مضامین کا بھی بغور مطالعہ کیا تھا اور وہ ایک حساس ذہن بھی رکھتے تھے۔اس لئے ان کے کلام میں کئی جگہ سائنسی مضامین کی منفرد عکاسی دیکھنے کو ملتی ہے۔جس کے تحت مجاز کی شاعری کا ایک نیا رنگ و آہنگ قاری کے سامنے ابھر کرسامنے آتا ہے۔

سائنسدانوں کے مطابق کائنات میں موجود ہر چیز مادے سے وجود میں آئی ہے۔یعنی خاک کے ایک ادنی سے ذرے سے لے کر آسمان پر موجود وسیع و عریض کہکشائیں سب مادہ سے تخلیق ہوئی ہیں۔مجاز کی غزل کا ایک شعر دیکھیں جس میں وہ خود کو خاک نشیں کہہ رہے ہیں اور عرش پر نظر جمائے ہوئے ہیں:

آج بھی ہے مجازؔ خاک نشیں

اور نظر عرش پر ہے کیا کہئے

اگر اس شعر پر غور و فکر کریں تو ایسا معلوم ہوتا کہ جیسے مجاز خاک یعنی زمین اور عرش یعنی فلک کے باہمی رشتے پر تحقیق کرنے کی طرف توجہ مرکوز کر رہے ہیں۔یہ وہ موضوعات ہیں جن کا مطالعہ ارضیات (Geology) اور کونیات (Cosmology) میں کیا جاتا ہے۔

 ایک دوسری غزل میں مجاز مشاہدہ کی بنا پر حسن کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں:

حسن ہی حسن ہے جس سمت بھی اٹھتی ہے نظر

کتنا پر کیف یہ منظر یہ سماں ہے ساقی

مشاہدہ اور تجزیہ کو سائنسی علوم میں مرکزیت حاصل ہے۔تجربہ کے دوران مشاہدے اور تجزیہ کے ذریعے نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے۔اس شعر پر غور کریں تو ایسا لگتا ہے جیسے مجاز کائنات میں موجود حسن کا مشاہدہ کر رہے ہیں اور اس کے حسین منظر کو دیکھ کر پر کیف ہو رہے ہیں۔ ٹھیک کسی سائنسداں کی طرح جب وہ کائنات میں موجود چیزوں کا مشاہدہ کرتا ہےاور اس سے دریافت ہونے والے نئے مناظر کو دیکھ کر تجسس کے مارے حیرت میں ڈوب جاتا ہے۔

اگر یہ کہا جائے کہ کائنات میں بکھرے ہوئے حسن کو اگر کسی نے بے حجاب کیا ہے یعنی دریافت کیا ہے تو وہ سائنس ہے۔سائنس وہ علم ہے جس کی بنیاد انسانی تجسس اور شوق نے رکھی۔انسان جب اس دنیا میں آیا تو اس کو شوق ہوا کہ وہ آس پاس کے ماحول کے بارے میں دریافت کرےاور کائنات کے پوشیدہ راز اس پر آشکار ہو سکیں۔ اس طرح فطرت انسان کی مسلسل کوششوں کی بنا پر وہ کائنات کے نئے نئے رازوں سے حجاب اٹھاتا گیا اور نئے نئے علوم کی بنیاد پڑتی گئی۔

مجاز لکھنوی کا ایک شعر دیکھیں جو اس بات کی ترجمانی میں پیش کیا جاسکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں:

حسن کو بے حجاب ہونا تھا

شوق کو کامیاب ہونا تھا

گویا مجاز کہہ رہےہیں کہ کائنات کا حسن کیوں نہ بے حجاب ہوتا۔کیوں کہ یہ کائنات انسان کے لئے مسخر کر دی گئی ہے۔ اس کی فطرت میں ذوق و شوق اور تجسس کو ودیت کر دیا گیا ہے۔اب جو اس حسین کا ئنات کو جاننے کے بارے میں جتنا شوق رکھے گا اتنا کامیاب ہوتا جائے گا۔

مجاز کا ایک خاصہ یہ بھی ہے کہ وہ عوام کو متحرک دیکھنا چاہتے ہیں۔ وہ اپنےکلام کے ذریعے قاری کے ذہن کو غور و فکر اور تدبر کرنے پر آمادہ کرتے ہیں۔وہ کائنات کی کتاب کو پڑھنے اور مختلف علوم کو سمجھنے اور سیکھنے کی دعوت دیتے ہیں:

میری دنیا جگمگا اٹھی کسی کے نور سے

میرے گردوں پر مرا ماہ تمام آ ہی گیا

شعر کا پہلا مصرع غور و فکر کی دعوت دے رہا ہے۔کہ آخر کس کے نور سے ہماری یہ دنیا جگمگا رہی ہے۔اس کائنات کے اندر وہ کیا شہ ہے؟ جو کہکشائوں اور ستاروں میں جگمگا رہی ہے۔کس وجہ سے یہ آفتاب روشن ہے؟ جس کے سبب گردوں پر یہ ماہ تمام اپنی چاندنی بکھیرتا ہوا نظر آتا ہے۔یعنی مجاز کائنات میں موجود ہر چھوٹے بڑے مادے کے بارے میں تحقیق کرنے کا جذبہ ابھار رہے ہیں۔

 مجاز ایک جگہ استہفامیہ انداز میں کہتے ہیں:

یہ کس کے حسن کے رنگین جلوے چھائے جاتے ہیں

شفق کی سرخیاں بن کر تجلیٔ سحر ہو کر

مجاز کا یہ شعربھی کائنات کے حسن پر تحقیق کرنے کی دعوت دیتا ہوا نظر آتا ہے۔

ماہرین فلکیات کے مطابق ہماری خلا کے اندر بہت سے بڑے بڑے پتھر بھی ہیں جو ہماری نظام شمسی میں گردش کر رہے ہیں۔جن کو ماہرین فلکیات شہاب ثاقب ( meteoroid) کہتے ہیں۔اس کےعلاوہ جب یہ ہماری زمین کی فضا میں داخل ہوتے ہیں تو ان کے لئے ٹوٹتا ہوا تارا،شہابیہ (meteorite) ’’ سنگ شہاب‘‘ جیسی اصطلاحات بھی استعمال کی جاتی ہیں۔جب شہاب ثاقب ہماری زمین کے دائرے میں آکر اس کی فضا سے گزرتےہیں تو ہمارے ماحول میں موجود ہوا کے ساتھ رگڑ، دباؤ اور کیمیائی تعامل کے باعث گرم ہوکر جلنے لگتے ہیں اور رات کو آسمان میں روشنی کی ایک لکیر دکھائی دیتی ہے۔شہاب ثاقب ٹوٹتے ہوئے تاروں سے متعلق مجاز کا ایک شعر دیکھیں:

رات تاروں کا ٹوٹنا بھی مجازؔ

باعث اضطراب ہونا تھا

گویا مجاز کے نزدیک تاروں کا ٹوٹتے ہوئے دیکھنا ایک اہم منظر ہے۔جو ان کے اندر اضطراب پیدا کر دیتا ہے۔ٹھیک کسی ماہر فلکیات کی طرح جس طرح ان کے لئے اس منظر کا مشاہدہ کرنا کافی اہم ہے۔کیوں کہ ان واقعات سے انہیں کائنات کے حسن کے بارے میں مزید معلومات حاصل ہوتی ہے۔یعنی وہ اس کے رازوں سے آشنا ہوتے ہیں۔اور جب کائنات کے حسن کو دریافت کرنے کا اضطراب مزید بڑھتا ہے تو سائنسداں بھی جنون کی کیفیت تک پہنچ جاتے ہیں۔مجاز اپنے ایک شعر میں سائنسدانوں کی زبانی ان کی جنونی کیفیت کی ترجمانی کرتے ہوئے کہتے ہیں:

کیا کیا ہوا ہے ہم سے جنوں میں نہ پوچھئے

الجھے کبھی زمیں سے کبھی آسماں سے ہم

گویا ماہرین فلکیات کہہ رہے ہیں کہ ہمارے تجسس اور جنون کا عالم یہ ہے کہ ہم ہر لمحہ کائنات کے رازوں کو بے حجاب کرنے کے لئے دن رات تحقیق کر رہے ہیں۔کبھی ہم زمین کی تہوں اور اس کی گہرائی میں الجھتے ہیں تو کبھی آسمان کی بلندی پر تحقیق کرتے ہیں۔ یعنی زمین کے ایک ادنی سے ذرے سے لے کر کائنات میں موجود اربوں کھربوں کہکشائوں کے بارے میں جاننے کے خواہش مند ہیں۔جتنا ہم اس کائنات کے بارے میں جانتے ہیں اتنے ہی اس کے رازوں میں الجھتے جاتے ہیں۔اور ہمارا جنون مزید بڑھتا جاتا ہے۔

الغرض مجاز کے کلام میں جگہ جگہ کائنات کے حسن کی حسین ترجمانی دیکھنے کو ملتی ہے۔لیکن شرط یہ ہے کہ وہ ہی قاری اس حسن سے لطف اندوز ہو سکے گا جس کی دلچسپی مختلف سائنسی علوم میں ہوگی۔آخر میں ان کے ایک شعر پر بات مکمل کرتے ہیں:

سچ تو یہ ہے مجازؔ کی دنیا

حسن اور عشق کے سوا کیا ہے

کتابیات:

(1)۔ کلیات مجاز، ناشر: کتابی دنیا،دہلی،سن اشاعت:2002ء

 (2)۔آھنگ (مع غیر مطبوعہ کلام) ناشر: ڈائرکٹر قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی، سن اشاعت:2011ء

(3)۔بگ بینگ سے کلوننگ تک ”طفیل ڈھانہ” فکشن کاؤس ۸۱۔ مزنگ روڈ لاہور (Marfat.com)

(4)۔شہاب ثاقب اور لاحق خطرات (jang.com.pk)  19  اپریل 2021ء

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here