ہم ان کا دل لگانا دل سے بھلا نہ پاۓ
اور پھر یوں چھوڑ جانا دل سے بھلا نہ پاۓ
راتوں کو روز چھپ کر ان کی گلی میں اپنا
وہ بانسری بجانا دل سے بھلا نہ پاۓ
گم سم ہیں آج کانہا بیٹھیں ہیں گوپیوں میں
رادھا کا روٹھ جانا دل سے بھلا نہ پاۓ
ان کا وہ روز پانی غنچوں کو دینے آنا
وہ وصل کا بہانا دل سے بھلا نہ پائے
اتنا سرور کافی ہم کو نہیں ہے ساقی
اک دور اور چلانا دل سے بھلا نہ پائے
سب سوچتے ہیں احؔرس ہم ان کو بھول بیٹھے
اب ان کو کیا بتانا دل سے بھلا نہ پائے