کون جانے کدھر جا رہا ہے بشر

کون جانے کدھر جا رہا ہے بشر

آدمی کے لیے آدمی ہے شرر

ان درختوں سے میں نے ہے جانا یہی

چوٹ کھا لو مگر سب کو دے دو ثمر

منزلوں تک نہ پہنچے وہی لوگ ہیں

راستے میں جنہیں نہ ملے ہوں خضر

لوگ ملتے یہاں اپنے مطلب سے ہیں

یوں کسی کو نہیں ہے کسی کی خبر

کب سے ہوں مبتلا عشق کے روگ میں

کوئی چارہ تو کر اے مرے چارہگر

کیا بتائیں کہ کتنا ہے خالی بدن

مجھ میں میری کمی ہی رہی عمر بھر

مدتیں ہو گئیں دیکھتے دیکھتے

احؔرس ان سے کہو پھیر لے وہ نظر

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here