لائٹ ہاؤس

دو صدیاں گزر گئیں ایک بڑھیا نے سرِ راہ ایک دیا روشن کردیا تھا۔تاکہ اندھیروں کی حکومت قائم نہ ہو سکے ۔یہ دیا اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ اپنے اجالے بکھیرنے لگا۔نہ جانے اس دئیے نے کتنے نئے دئیے روشن کر دئے جو اندھیروں سے بر سرِپیکار ہوئے۔آج جس جگہ یہ لائٹ ہاؤس بنا ہوا یہ وہی جگہ ہے جہاں اس بڑھیا نے دیاروشن کیا تھا۔یہاں کی مٹی سے نئے نئے دئیے پروان چڑھے اور اپنی روشنی بکھیرنے لگے۔آج اس لائٹ ہاؤں کے دئیے ساری دنیا میں مشہور ہیں ۔تنویر اپنے شہر کی یہ تاریخ جان کر فخر محسوس کرنے لگا۔

ابھی وہ لائٹ ہاؤس کی خوبصورتی کو نہار ہی رہا تھا۔ایک دھول بھری آندھی اس لائٹ ہاؤس کو اپنے گھیرے میں لینے لگی۔تنویر کو یہ کسی طوفان کے آنے سے پہلے کی دستک سنائی دی۔یکایک آسمان پر کالے گھنے بادل چھائے اورسورج کوتاریکیوں میں غرق کرنے لگے۔سورج کی سرخ روشنی بادلوں کے دامن پر خون کی طرح پھیلی جیسے کسی نے اس امید کے سورج کو لہولہان کر دیا ہو۔دھیرے دھیرے اندھیرا چھانے لگااور روشن دن اندھیرے میں ڈوبتا چلا گیا۔جب اندھیروں نے اپنے پاؤں جمائے تو لائٹ ہاؤس میں چھوٹے چھوٹے دئیے پورے آب و تاب کے ساتھ جگ مگا اٹھے۔ان سے نکلنے والی کرنیں اندھیروں کے مدِمقابل آ کر کھڑی ہو گئیں۔تنویر جو یہ منظر دیکھ رہا تھا سوچنے لگا۔ایسی ہی آندھی کچھ دن پہلے چلی تھی جس نے ایکتا محل کی امن کی مناروں کو گرانے کی کوشش کی تھی۔اس کے صحن گلشن کے پھولوں اور درختوں کو نقصان پہنچایا تھا پرندوں کے آشیانوں کو مسمار کردیا تھا۔وہ دو جھرنے جو دو بڑی نہروں سے آ کر اس محل میں گرتے تھے ان کے پانی کو آلودہ کردیا تھا۔آج اسی طرح کی آندھی اس تاریخی لائٹ ہاؤس کو گرانے پر آمادہ نظر آرہی تھی۔ہوائیں اپنا رنگ بدل رہی تھیں کہ کسی طرح اس لائٹ ہاؤس میں جل رہے دیوں کو بجھا کراس کوبھی اندھیروں کی دنیا میں غرق کر دیا جائے۔تاکہ آندھیروں کی حکومت مکمل طور پر قائم کی جاسکے۔ہر جگہ اندھیرے اپنے قدم جما چکے تھے صرف یہی ایک ایسا مقام تھاجہاں سے روشنی کی کرنیں آسمانوں کی بلندی پر پہنچ کر اندھیروں کی راہ میں حائل ہو رہی تھیں۔تنویر نے دیکھاان اندھیروں میں کچھ سائے ابھرے جو اپنی شکلیں ہر لمحہ بدل رہے تھے۔اچانک کچھ بھیانک زہریلے ناگ پھن اٹھائے ہوئے پھنکاریں بھرتے ہوئے اندھیرے سے نکلے اور لائٹ ہاؤس میں داخل ہو گئے وہ اجالوں کو ڈسنا چاہتے تھے۔پھر سائے نے روپ بدلااب وہ دیوں کے نشیب میں زنجیر بن کر لپٹ گئے۔دئیے بھی بلند حوصلہ کے ساتھ اندھیروں کے مقابل میں کھڑے رہے۔کچھ دیوں نے اندھیروں کو مقید کر کے ہوا کے حوالہ کیا ۔لیکن یہ کیا ہوا بھی اپنا رخ بدل چکی تھی وہ بھی اندھیروں کی حمایت میں اتر آئی۔وہ ہوا جس کو دئیے جلانے میں مدد کرنا چاہئے تھا آج وہ بھی دیوں کے سر پر وار کرنے لگی تھی۔لیکن پھر بھی دئیے پوری طاقت کے ساتھ جلتے رہے۔آخر کار اندھیروں کے قدم اکھڑنے لگے۔جب وہ ان دیوں کے سامنے نہ ٹک سکے تو بھاگ کھڑے ہوئے۔تاریکی چھٹنے لگی اور امید کا سورج پھر نمودار ہوا۔تنویر دعا کرنے لگااے میرے مالک ان اندھیروں کی حکومت میں اس لائٹ ہاؤس کو محفوظ رکھ اگریہ لائٹ ہاؤس بھی برباد ہوگیا تو کون ہماری زندگی میں روشنی کی کرن لائے گا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here