صد بہاروں سے لالہ زار ہے دل
فصل گل ہے کہ خار خار ہے دل
شام در شام اک نئے ڈھب سے
زخم جویائے نو بہار ہے دل
خوب واقف ہے راز ہستی سے
سب کے سینوں میں بے قرار ہے دل
حوصلہ چاہئے رفوگر میں
ریزہ ریزہ ہے بے شمار ہے دل
کتنے ارمان دفن ہیں اس میں
نقش فانی میں اک مزار ہے دل