لوگ کہتے ہیں کہ انسان کو ایک وقت میں اور تمام زندگی میں حتی کہ جب تک اس کی روح قبض نہ کر لی جاۓ کم از کم ایک دفع محبت ضرور کرنی چاہیے، اور ایک شخص کے با کردار ہونے کی یہ ایک دلیل بھی ہے۔
مگر لوگ اس قول کو کس بنیاد پر اختیار کرتے ہیں اس بات کی کوئی وضاحت کسی علم میں موجود نہیں۔
میرے خیال میں یہ ساری باتیں بے بنیاد اور من گڑھت ہیں،میں نے اپنی زندگی میں چار علیحدہ محبتیں کیں اور چاروں کے اپنے درجات مقرر ہیں۔
پہلی محبت طفلی تھی، یہ نہایت ضروری تھی محبت کے آداب سیکھنے میں یا یوں کہیے کہ محبت کی تربیت کا ذمہ اسی کے سر تھا۔
جوں جوں عمرِ رواں جوانی کی گلیوں میں قدم رکھتی گئ، ظاہری محبت کا کام شروع ہو گیا، یہ ظاہری محبت وہ محبت ہے جو آپ اپنے احباب کے ساتھ بیٹھ کر چاۓ کی چسکی مارتے ہوئے محض تصورات کی دنیا میں گڑھتے ہیں جسکا ذکر اور ذائقہ تو زبان پر ہوتا ہے لیکن اصل سے دور دور تک اس کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
اس کے بعد پھر جیتے جاگتے کسی شخص کو دیکھ کر یا سامنے پاکر یا مل کر دل کی دھڑکنوں کا تیز ہو جانا ذہنی محبت کہلاتا ہے۔ ذہنی محبت کہنے کا سبب یہ ہے کہ آپ اصل محبت میں گرفتار تو ہو جاتے ہیں مگر اپنی ذہن کی حد تک محدود رہنا اس کے شرائط میں سے ہوتا ہے۔ اس کا نہ آپ کسی احباب سے ذکر کر سکتے ہیں نہ اُس شخص سے اقرار کر سکتے ہیں جس کی محبت میں آپ ذہنی طور پر گرفتار ہو چکے ہیں۔
یہ تمام زندگی کے لیے اپنے دل میں محفوظ کر لی جاتی ہے اور عمر کچھ اور جوان ہو جاتی ہے۔
تب ہوتی ہے ہمسفری محبت،جو باقی ساری محبت سے افضل اور ضروری اس لیے بھی ہے کیونکہ اس میں طفلی، ظاہری اور ذہنی، تینوں محبتوں کا ذائقہ موجود ہوتا ہے، تینوں کے تجربے موجود ہوتے ہیں اور اس کے افضل ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہ حاصل ہوتی ہے۔
یہاں آپ کو محبت نبھانی پڑتی ہے جو زندگی کی تنگ گلیوں کا سفر آپ کے لیے آسان کر دیتی ہے۔
میں ہمسفری محبت کا ہاتھ تھام کر اگر محبت کے پچھلے کسی کردار سے زندگی میں کبھی ٹکرا جاتا ہوں تو پہلی محبت کی نگاہوں میں جھانک کر دوسری کا ہاتھ پکڑ کر تیسرے کی پیشانی چومنے کا اختیار رکھتا ہوں، حالانکہ مجھے یہ سارے حقوق چوتھی سے میسر ہیں۔
لہذا ہر محبت کے الگ درجات ہیں اور ہر محبت کے الگ حقوق ہیں،ایک محبت کے تمام فسانے فریب ہیں، انسان کے اختیار میں نہیں کہ وہ ایک محببت کرے، اسے زندگی کے ہر مرحلہ سے گزرنا ہے اور مختلف محبتیں کرنی ہیں۔ ایسا میرا ماننا ہے۔