خود کو اتنا بھی پشیمان نہیں کرنا تھا
چند لمحوں کو دل و جان نہیں کرنا تھا
تیری خواہش بھی نہ ہو تجھ سے شکایت بھی نہ ہو
اتنا احسان مری جان نہیں کرنا تھا
پھر تو ہونا ہی تھا اے عشق تماشائے جنوں
ہوش والوں کو نگہبان نہیں کرنا تھا
اتنی دوری تھی تو دوری کا بھرم بھی رکھتے
میری آنکھوں کو شبستان نہیں کرنا تھا
در پہ بیٹھے ہیں سوالی کہ اجازت پاویں
تم کو تاخیر کا سامان نہیں کرنا تھا
ہم ہواؤں سے سدا بر سر پیکار رہے
اب یہ لگتا ہے چراغان نہیں کرنا تھا
ایک امید کے سائے میں گزاری احمر
اس قدر عمر پہ احسان نہیں کرنا تھا