کھلی زلفیں جھکی پلکیں تماشا بھی نہیں ہوگا
نظر آئے گا وہ جو دیکھا بھی نہیں ہوگا
نظر دور تم جاکر ہماری دیکھ بھی لینا
جہاں میں آپ کا ہم سا دوانہ بھی نہیں ہوگا
یہ باتیں بھی نہیں ہونگی یہ راتیں بھی نہیں ہونگی
ترے چہرے پہ زلفوں کا بکھیڑا بھی نہیں ہوگا
سمٹ جائے گی یہ دنیا کسی دن ان ہی باتوں میں
فلک یار پریوں کا ٹھکانہ بھی نہیں ہوگا
سفر یہ بھی ختم ہوجائے گا تم دیکھنا اک دن
تمہارے پاس الفت کا خزانہ بھی نہیں ہوگا