تبادلۂ خیال، بحث و مباحثہ، تکرار و مذاکرہ، گفت و شنید ایک صاف ستھرا اور میٹھا چشمہ حیواں ہے، جس کی مٹھاس اور حسن و خوبی سے انسان پیدائش سے ہی لطف اندوز ہوتا رہا ہے ،بلکہ اس کی طبیعت اور فطرت میں بحث و مباحثہ اور مذاکرہ کا ایسا حسین مزاج تحلیل کردیا گیا ہے جس سے اس کی خوبصورتی دوبالا ہو گئی ہے۔ کیونکہ انسان کو حق جل مجدہ نے عقل کی گراں قدر اور بیش قیمت دولت سے سرفراز فرمایا ہے اور ہر ایک انسان کو غور و فکر اور عقل و فہم اور بصیرت سے مالا مال کیا ہے، مگر عقل کی پختگی، فکر کی وسعت اور فہم و بصیرت کی بلندی میں نمایاں فرق رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک ہی ماحول اور آب وہوا میں پروان چڑھنے والا بنی آدم جو حسن و جمال، زبان و بیان میں یکساں، لیکن فکر و فہم ،سوچ بچار اور خیال میں ایک دوسرے سے بالکل مختلف نظر آتا ہے۔ ایک انسان مثبت سوچ کا حامل ہوتا ہے تو دوسرا فرد منفی فکر کا طرف دار نظر آتا ہے، ایک تعمیری نظریے کا پرچارک، تو دوسرا تخریبی خیال کا پجاری، یا ایک اصلاحی ذہن کا مالک تو دوسرا فسادی دماغ کا حامل ہوتا ہے،ایک کے دماغ میں خیر کی باتیں جنم لیتی ہیں اور دوسرے کے دماغ میں شر کے شرارے پھوٹتے ہیں۔ جب انسان کی عقل اس کے دماغ اور طبیعت میں اس قدر اختلاف ہے تو فکر و نظر میں ہم آہنگ نہ ہونا یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے اور علم و تحقیق کی دنیا میں اختلاف رائے لازمی ہے۔
جب اختلاف رائے ایک فطری چیز ہے اور اسی سے اس دنیا کی رعنائی باقی ہے تو پھر کیا اس اختلاف کو حل کرنے کی کوئی سنجیدہ اور پر اثر صورت بھی ہے جس سے اختلاف ختم ہو اور اتحادِ فکر قائم ہو، عوام الناس کے دلوں کے شکوک و شبہات کا ازالہ ہو اور صحیح سوچ و فکر ان کے دلوں میں جگہ لے۔ اس کا ایک بہت پرانا اور مقبول طریقہ ” بحث و مباحثہ اور تکرار و مذاکرہ” لوگوں کے درمیان میں رائج رہا ہے ،جس میں لوگ اپنے نظریات و خیالات افکار و آراء دلائل کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ جن حضرات کو ان آراء اور افکار سے اتفاق نہیں ہوتا ہے وہ اس کی تردید میں اپنی درست رائے دلائل کے ساتھ ذکر کرتے ہیں۔
مگر بحث و مباحثہ، گفت و شنید کے کچھ قرآنی آداب بھی ہیں جن کی رعایت ہمیں بحیثیت مسلمان کے کرنی از حد ضروری ہے
(۱) اُدْعُ اِلٰى سَبِيْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ ۖ وَجَادِلْـهُـمْ بِالَّتِىْ هِىَ اَحْسَنُ ۚ اِنَّ رَبَّكَ هُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِيْلِـهٖ ۖ وَهُوَ اَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِيْنَ (النحل : 125)
(اپنے رب کے راستے کی طرف دانشمندی اور عمدہ نصیحت سے بلاؤ، اور ان سے پسندیدہ طریقہ سے بحث کرو، بے شک تمہارا رب خوب جانتا ہے کہ کون اس کے راستہ سے بھٹکا ہوا ہے، اور ہدایت یافتہ کو بھی وہ خوب جانتا ہے)۔
لہذا مذہبی بحث یا مناظرے میں بہت اچھے طریقے سے بات کرنا چاہیے۔
(۲)ٱدْفَعْ بِٱلَّتِى هِىَ أَحْسَنُ ٱلسَّيِّئَةَ نَحْنُ أَعْلَمُ بِمَا يَصِفُونَ . (المؤمنون 96)
(بری بات کے جواب میں وہ کہو جو بہتر ہے، ہم خوب جانتے ہیں جو یہ بیان کرتے ہیں)۔
لہذا بری بات کے جواب میں ایسی بات کہو جو نہایت اچھی ہو۔
(۳)خُذِ الْعَفْوَ وَاْمُرْ بِالْعُرْفِ وَاَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِيْنَ
اِمَّا يَنْزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطَانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللّـٰهِ ۚ اِنَّهٝ سَـمِيْـعٌ عَلِيْـمٌ ( الأعراف ۔ 199,200)
(درگزر کرو اور نیکی کا حکم دو اور جاہلوں سے الگ رہو،
اور اگر تمہیں کوئی وسوسہ شیطان کی طرف سے آئے تو اللہ کی پناہ مانگا کرو، بے شک وہ سننے والا، جاننے والا ہے)۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو آیت مبارکہ میں نرمی درگزر کا طریقہ اختیار کرنے، معروف کی تلقین اور جاہلوں سے نہ الجھنے،اگر کبھی شیطان اکسائے تواللہ تعالی کی پناہ مانگنے کی تعلیم دی جا رہی ہے۔
(۴)وَلَا تَسُبُّوا الَّـذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُون اللّـٰهِ فَـيَسُبُّوا اللّـٰهَ عَدْوًا بِغَيْـرِ عِلْمٍ ۗ كَذٰلِكَ زَيَّنَّا لِكُلِّ اُمَّةٍ عَمَلَـهُـمْۖ ثُـمَّ اِلٰى رَبِّـهِـمْ مَّرْجِعُهُـمْ فَيُنَـبِّئُهُـمْ بِمَا كَانُـوْا يَعْمَلُوْنَ (108)
(اور جن کی یہ اللہ کے سوا پرستش کرتے ہیں انہیں برا نہ کہو ورنہ وہ بے سمجھی میں زیادتی کر کے اللہ کو برا کہیں گے، اس طرح ہر ایک جماعت کی نظر میں ان کے اعمال کو ہم نے آراستہ کر دیا ہے، پھر ان سب کو اپنے رب کی طرف لوٹ کر آنا ہے تب وہ انہیں بتلائے گا جو کچھ وہ کیا کرتے تھے)۔
مسلمانوں کو ہدایت دی گئی ہے تو وہ کافروں کے سامنے ان کے دیوتاؤں کے لئے نازیبا الفاظ استعمال نہ کیا کریں جس کی وجہ سے یہ کافر اللہ تبارک و تعالی کی شان میں گستاخی کر سکتے ہیں۔
الحاصل: تکرار و مذاکرات، تبادلہ خیال ،بحث و مباحثہ سیاسی ہو یا مذہبی، اخلاقی ہو یا اصلاحی، ثقافتی ہو یا ادبی، سنجیدہ و پُر اثر ،صحت مند ، مثبت، مخلصانہ، منصفانہ اور فاضلانہ ہو، بے جا تنقید سے بالاتر ہو،اس میں ذاتی مفاد کا کوئی عمل دخل نہ ہو اور اخلاص نیت کے ساتھ اصلاح کے پیش نظر ہو۔