اردو غزل میں جن شخصیات نے حسن اور شوخی کو اپنی طبع آزمائی کا خاص موضوع بنایا ان میں ایک اہم نام امیرؔ مینائی کا ہے۔ امیر مینائی کا شمار اردو ادب کے ان شعراء میں ہوتا ہے جنہوں نے غزل کی اصل روایت کو زندہ رکھنے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔
امیر مینائی کا اصل نام امیر احمد تھا۔ امیرؔ تخلص رکھتے تھے۔ ۲۱ فروری ۱۸۲۹ کو لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد مولوی شاہ عبد الرحمن لکھنوی اپنے وقت کے ایک جید عالم اور شاعر تھے۔ ان کا سلسلہ نسب حضرت عباس بن عبد المطلب سے ملتاہے۔
زمانہ طفلی ہی میں امیر کے سر سے والد کا سایہ اٹھ گیا اور آپ کے بڑے بھائی مفتی حسن (جو اس وقت میر منشی تھی) نے آپ کی پرورش کی۔ جب آپ کی عمر سولہ برس ہوئی تو منطق و فلسفہ اور علم ادب کا درس حاصل کیا۔ اس کے علاوہ فقہ اور اصول فقہ پر بھی اچھی دسترس حاصل کر لی۔ امیر نے نواب محمد حسن بریلوی سے طب کی تعلیم بھی حاصل کی۔
زمانہ طالب علمی سے ہی امیر کو شاعری کا شوق پیدا ہو گیا اور شاعری کرنے لگے۔ خوش قسمتی سے امیر کو نوجوانی سے ہی شہرت ملنے لگی اور اسی زمانہ میں وہ اودھ کے شاہی دربار سے وابستہ ہو گئے۔ آپ نے محکمہ پیشی میں دو سو روپیہ ماہانہ پر ملازمت اختیار کر لی اور اسیر لکھنوی کی ماتحتی میں کام کرتے رہے۔ در اصل امیر کو شاعری ورثہ میں ملی تھی۔ امیر کے والد بھی اپنے وقت کے ایک اچھے شاعر تھے۔ نو عمری میں جب اسیر لکھنوی کو اصلاح کی غرض سے اپنا کلام دکھایا تو اسیر نے خوش ہو کر ان کی صلاحیتوں کی خوب تعریف کی۔ اسیر لکھنوی مشہور شاعر مصحفیؔ کے شاگرد تھے۔
چند برس بعد ۱۸۵۷ کے غدر کے بعد امیر کی ملازمت چلی گئی اور انہیں دوسرے لوگوں کی طرح لکھنؤ چھوڑنا پڑا۔ تنگی اور خستہ حالی کا کچھ عرصہ گزرنے پر امیر کو والی رامپور نواب یوسف علی خاں کا پیغام آیا جس میں انہوں نے امیر کو رامپور مدعو کیا۔ امیر رامپور آئے تو نواب صاحب نے انہیں اپنے ہاں ملازمت بھی دی اور ان کی بہت قدردانی فرمائی۔ چنانچہ امیر سو روپیہ ماہانہ پر عدالت دیوانی کے مفتی مقرر ہو گئے۔ نواب یوسف علی خاں خود بھی ایک اچھے شاعر تھے اس لئے وہ اسیر لکھنوی کے بعد امیر مینائی سے ہی اصلاح لیتے تھے اور انہیں شاعری میں اپنا استاد قرار دیتے تھے۔ اس وجہ سے دربار میں امیر پر خاص عنایات بھی کی جاتی تھیں۔
امیر نے سلسلہ طریقت میں حضرت مخدوم مینائی سے بیعت کی تھی جس کی نسبت سے وہ مینائی کہلانے لگے۔
نواب یوسف علی خاں کے بعد نواب کلب علی خاں، مشتاق علی خاں اور حامد علی خاں نے ان کی ملازمت کو برقرار رکھا لیکن تنخواہ اور دیگر سہولیات میں بہت کمی ہو گئی۔ چنانچہ رامپور میں ایک لمبا عرصہ گزار کر امیر نے حیدرآباد کا رخ کیا اور عمر کا آخری حصہ یہیں گزارا۔ لیکن وہاں پہنچ کر طبیعت زیادہ خراب ہو گئی اور ۱۳ اکتوبر ۱۹۰۰ میں امیر مینائی نے انتقال فرمایا۔ درگاہ یوسفین حیدرآباد میں ان کی تدفین ہوئی۔
امیر مینائی اردو کے عظیم شاعر داغؔ دہلوی کے ہم عصر تھے۔ داغؔ سے ان کے دوستانہ مراسم تھے لیکن کسی قدر چشمک اور رقابت بھی موجوود تھی۔ داغؔ کی بے پناہ مقبولیت کے باوجود بھی امیر کی شاعری نے لوگوں کے دلوں میں مقام بنایا۔ انہوں نے تمام اصناف سخن میں طبع آزمائی کی۔ غزل،قصیدہ،نظم،مرثیہ اور نعت سبھی میں امیر مینائی کا کلام موجود ہے۔
امیر کی غزلوں میں شوخی اور معشوق کے حسن اور اس کی بد سلوکی کا بھی خوب ذکر کیا گیا ہے۔ شعرائے متاخرین میں وہ اک ممتاز حیثیت رکھتے ہیں۔ قصیدہ گوئی میں ان کی قدرت کلام مسلّم ہے جبکہ غزل میں ان کے کلام کا عام جوہر زبان کی سلاست، مضمون کی نزاکت اور شگفتہ بیانی ہے جس میں لکھنؤ کی مناسبت سے لوازم حسن کی رنگینی اور نسوانی خصوصیات کی جھلک بھی موجود ہے۔ کلام سراسر ہموار ہے جس میں موزونیت، نازک خیالی، پختگی، تمثیل نگاری اور تصوف نے گویا ایک رنگین چمن سا کھلا دیا ہے۔
امیر کی مقبولیت کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ ان کے کئی اشعار ایسے ہیں جو اردو ادب میں ضرب المثل کی حیثیت اختیار کر گئے۔
بعض اشعار ملاحظہ ہوں:
امیرؔ جمع ہیں احباب دردِ دل کہہ لے
پھر التفاتِ دلِ دوستاں رہے نہ رہےخنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیرؔ
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہےگاہے گاہے کی ملاقات ہی اچھی ہے امیرؔ
قدر کھو دیتا ہے ہر روز کا آنا جاناتری مسجد میں واعظ خاص ہیں اوقات رحمت کے
ہمارے میکدے پر رات دن رحمت برستی ہےہوئے نامور بے نشاں کیسے کیسے
زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسےفراقِ یار نے بے چین مجھ کو رات بھر رکھا
کبھی تکیہ ادھر رکھا کبھی تکیہ ادھر رکھاجواں ہونے لگے جب وہ تو ہم سے کر لیا پردہ
حیا یک لخت آئی اور شباب آہستہ آہستہتیر پر تیر لگاؤ تمہیں ڈر کس کا ہے
سینہ کس کا ہے مری جان جگر کس کا ہےکس ڈھٹائی سے وہ دل چھین کے کہتے ہیں امیرؔ
وہ مرا گھر ہے رہے جس میں محبت میری