مرکب کچھ نہیں ہے صرف اک پانی سے بنتا ہے
ترا چہرہ مری آنکھوں میں آسانی سے بنتا ہےکوئی منظر ہو بس ہوتا ہے یوں ہی عام سا منظر
تماشہ تو اے میرے دوست حیرانی سے بنتا ہےہمیں سب یاد ہے لیکن ہمیں سب بھول جانا ہے
یہاں بنتا ہے جو کچھ لمحہ فانی سے بنتا ہےبکھرتی ہیں جو وہ زلفیں تو شب کی بات چلتی ہے
رخ صبح درخشاں اُسکی پیشانی سے بنتا ہےذرا اک سوچنا تُجھکو اور اپنے دل میں پا لینا
کوئی بھی کام ہو کب اتنی آسانی سے بنتا ہے