عشق میں اور اذیت اے جگر چاہیے ہے
مجھکو اس آگ کے دریا میں بھنور چاہیے ہےآنکھیں مانوسِ شبِ تارِ الم ہو بھی گئیں
اور یہ دل ہے اسے اب بھی سحر چاہیے ہےجزبۂ عشق مرے رخ سے تو وحشت نہ ہٹا
مجھکو اس شوخ کی آنکھوں میں یہ ڈر چاہیے ہےدھوپ ہی بیچنے والے یہ بتا سکتے ہیں
کون وہ لوگ ہیں جن جن کو شجر چاہیے ہےخاک جھڑتی ہے بدن سے وہ تھکن ہے یاروں
روح بھی چیخ رہی ہے مجھے گھر چاہیے ہےتیرگی کون سے کونے میں نہیں پہنچی ہے
روشنی تجھ سے فقط اتنی خبر چاہیے ہےانکو سجدے میں تو انکو سرِ نوکِ نیزہ
سب کو بس ایک ہی دھن ہے مرا سر چاہیے ہےکون جانے کہ سفر کی بھی کوئی منزل ہے
کون جانے کہ سفر کو بھی سفر چاہیے ہے