ہنگامۂ حیات کو کوئی تو نام دے
اے زندگی مجھے تو مناسب مقام دےجلدی نہ کر کہ ساقیا یہ فعل ہے برا
باقی ہے شب تمام سلیقے سے جام دےچرچہ مری شکست کا کچھ دیر تک تو ہو
میں کب یہ چاہتا تھا بقائے دوام دےیہ کیا کہ ایک تال پہ دنیا ہے محو رقص
اس گردش کہن کو نئے صبح و شام دےاحمر ندیم ضبط کے پہلو کو تھام کر
کیا توسن حیات کو کوئی لگام دے