سبھی منتر سخن کے سیکھنے میں وقت لگتا ہے
اترنے کے لیے ساغر میں دریا ہونا پڑتا ہےوہی لڑکا کسی اپنے کو کھونے سے جو ڈرتا ہے
وہی ہے جو ہمیشہ خدکشی کی بات کرتا ہےمحبت کو ہی باغی شعر سے اپنے میں کرتا ہوں
وہی لڑکا ہوں میں جو فیص کو غالب کو پڑھتا ہوںزمانے کو سیکھا جاتا ہے جینے کا سلیقہ وہ
وہی شاعر جو جیتے جی ہزاروں بار مرتا ہےکہانی ختم ہوتی ہے ہمیشہ موت سے جس کی
وہی کردار لوگوں کے دلوں میں زندہ رہتا ہے