سفر طویل ہو اور رہ نما خراب نہ ہو
تو منزلوں کا کبھی ذائقہ خراب نہ ہوہم اضطراب میں ہیں جنگ کیسے رک جائے
تمہیں یہ فکر کے بس قاعدہ خراب نہ ہوہر ایک رنگ پھر اس دل کو راس آتا ہے
جو دیکھنے کا اگر زاویہ خراب نہ ہوکوئی بھی نام ترے بعد ہم نہیں لیتے
گریز کرتے ہیں کے ذائقہ خراب نہ ہوتمام زندگی گزری ہو چاہے جیسی بھی
یہ پیش و پس ہے کے بس خاتمہ خراب نہ ہویہ سوچ کر کے کبھی جھوٹ بول لیتے ہیں
ہر ایک شخص سے اب رابطہ خراب نہ ہوعجیب شخص ہے عرفان ہم سے چاہتا ہے
کے پیڑ کاٹ دیں اور گھونسلا خراب نہ ہو