بس ایک عشق والی کہانی نکال کر
بچتا ہی کیا ہے یار جوانی نکال کروہ بد نصیب لوگ بڑے بد نصیب لوگ
پیاسے رہے زمین سے پانی نکال کربیٹھے ہوئے ہیں صبح سے افسوس میں یونہی
تصویر کوئی اپنی پرانی نکال کراب لوگ لکھ رہے ہیں محبّت کی داستان
ملبے سے میرے اس کی نشانی نکال کراک بادشاہِ وقت کو ہم نے شکست دی
بس اس کی داستان سے رانی نکال کرعرفان لگ رہا ہے یہ ٹھہراؤ میں مگر
ٹھہرا کبھی ہے دریا روانی نکال کر