مسرّتوں کی یہ ندیاں سبھی بہاؤ میں ہیں
تمہارے ساتھ بھی غم ہیں مگر دباؤ میں ہیںتمہارے جیسا کوئی اور بن بھی سکتا ہے
کے چاک کوزہ گروں کے ابھی گھماؤ میں ہیںیہ حسن و عشق کے چکر میں ہم نہیں پڑتے
مگر شعاعیں تمہارے جو ہاؤ بھاؤ میں ہیںہے شاہ کار ہر اک شے تری بنائی ہوئی
اسی لیے تری دنیا سے ہم لگاؤ میں ہیںترے خطوط بھی دیمک کے آگے ہار گئے
اور ہم بھی زندگی کے آخری پڑاؤ میں ہیںمچا رہے تھے بہت شور میرے حق میں بھی
یہ لوگ آج جو اُترے ترے بچاؤ میں ہیںمیں ان کے ساتھ ہی عرفان ڈوب جاؤں گا
جو لوگ ڈوبنے والے ہیں میری ناؤ میں ہیں