جوں تخیل کی حد آسماں تک نہیں
اپنی ہستی فقط جسم و جاں تک نہیںاک یقیں ہے، سو وہ تیرے ہونے کا ہے
اپنے ہونے کا مجھ کو گماں تک نہیںجاگتے جاگتے تھک گیا ہوں، مگر
نیند کا کوئی نام و نشاں تک نہیںزلفِ خوباں میں جا کر ٹٹولو اسے
کچھ دلِ بے ادب استخواں تک نہیںکون ٹھہرا مداوائے رنج و الم
دل کی بستی میں اک مہرباں تک نہیںتیری صحبت میں ہے عشرتِ دو جہاں
تیری صحبت میں مجھ کو اماں تک نہیںدھوپ ہی دھوپ ہے جس طرف دیکھیے
عشق کی راہ میں سائباں تک نہیںحسن کی منزلوں کا کہاں تک شمار
شوق کی شاہ راہیں کہاں تک نہیں